بدھ بکشوؤں کے روحانی پیشوا دلائی لاما نے اتوار کو اپنی 90ویں سالگرہ منائی اور اس موقع پر دنیا میں امن کی دعا کی جب کہ چین نے ایک بار پھر اصرار کیا کہ اُن کے جانشین کے تعین کا حتمی اختیار بیجنگ کے پاس ہوگا۔
عالمی میڈیا کے مطابق ہمالیہ کے جنگلات میں واقع بھارتی مندروں سے سرخ لباس میں ملبوس راہبوں اور راہبات کی صدائیں گونجتی رہیں، دلائی لاما اور ہزاروں تبتی باشندے 1959 میں چینی افواج کے ہاتھوں لاسا میں بغاوت کچلے جانے کے بعد سے بھارت میں مقیم ہیں۔
اپنے پیغام میں دلائی لاما نے کہا کہ ’میں صرف ایک سادہ بدھ بکشو ہوں اور عام طور پر سالگرہ نہیں مناتا‘، انہوں نے ان افراد کا شکریہ ادا کیا جو ان کے ساتھ یہ موقع منا رہے تھے اور اسے دل کا سکون اور ہمدردی پیدا کرنے کا ذریعہ بنا رہے تھے۔
روایتی لباس اور زرد چادر میں ملبوس دلائی لاما دو بکشوؤں کے سہارے چلتے ہوئے اپنے ہزاروں پیروکاروں کو اپنی مشہور مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلاتے رہے۔
چین نوبیل انعام یافتہ دلائی لاما کو ایک ’باغی اور علیحدگی پسند‘ قرار دیتا ہے، جو تبت کی خودمختاری کے لیے عشروں سے سرگرم ہیں، تبت، جو ایک بلند و بالا پہاڑی خطہ ہے، 1950 میں چینی افواج کے قبضے میں آیا تھا اور تب سے بیجنگ کے زیرِ انتظام ہے۔
سالگرہ کی تقریبات کے ساتھ ساتھ تبتی جلاوطن افراد میں اس بات کی گہری تشویش بھی موجود ہے کہ چین دلائی لاما کے انتقال کے بعد اپنا جانشین مقرر کر کے علاقے پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط کرے گا، اس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل میں دو متضاد دعویدار سامنے آئیں گے، ایک چین کا مقرر کردہ اور دوسرا دلائی لاما کے بھارت میں قائم دفتر کا مقرر کردہ ہوگا۔
اپنے پیغام میں دلائی لاما نے کہا کہ ’مادی ترقی ضروری ہے، لیکن دل کا سکون حاصل کرنا اور ہر فرد کے ساتھ ہمدردی رکھنا زیادہ اہم ہے، اگر ہم ایک اچھے دل کے ساتھ زندگی گزاریں تو ہم دنیا کو بہتر جگہ بنا سکتے ہیں‘۔
تقریبات کے دوران دلائی لاما نے اعلان کیا کہ روحانی سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے گا، ان کا کہنا تھا کہ انہیں ہمالیہ کے علاقوں، منگولیا، روس اور چین کے بعض حصوں سے پیروکاروں کی جانب سے جانشینی کے سلسلے کو برقرار رکھنے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
چین نے فوراً اس اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جانشینی ’سنہری برتن سے قرعہ اندازی‘ کے ذریعے ہوگی اور یہ طریقہ کار بیجنگ کی مرکزی حکومت کی منظوری سے ہی ممکن ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ نِنگ نے کہا کہ سنہری برتن بیجنگ کے پاس ہے، جب کہ دلائی لاما پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ عمل اگر بددیانتی سے کیا جائے تو اس کی کوئی روحانی حیثیت نہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دلائی لاما کو سالگرہ کی مبارک باد دیتے ہوئے انہیں ’محبت کی ایک دائمی علامت‘ قرار دیا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا تبت کے عوام کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کے لیے پُرعزم ہے۔
تقریبات میں ہالی ووڈ اداکار رچرڈ گیئر بھی شریک تھے، جو تبت کے کاز کے پرانے حامی ہیں، انہوں نے دلائی لاما کو’خود پسندی سے پاک، مکمل محبت، ہمدردی اور دانشمندی کا مظہر’ قرار دیا۔
سابق امریکی صدور بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور باراک اوباما نے بھی پیغامات بھیجے، جب کہ اوباما نے کہا کہ دلائی لاما نے دکھایا ہے کہ ’آزادی اور وقار کے لیے آواز بلند کرنا کیسا ہوتا ہے‘۔
تقریب کا اختتام دلائی لاما کی جانب سے کیک کھانے اور ہجوم کی جانب سے ’ہیپی برتھ ڈے‘ گانے کے ساتھ ہوا۔
آئندہ جانشین کے حوالے سے تاحال کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی, اب تک تمام دلائی لاما مرد یا لڑکے رہے ہیں، جنہیں عموماً بچپن میں شناخت کیا گیا اور نوجوانی میں ذمہ داریاں سنبھالیں۔
موجودہ دلائی لاما، جنہیں 1937 میں پیشوا نامزد کیا گیا تھا، کہہ چکے ہیں کہ اگر کوئی جانشین مقرر کیا گیا تو وہ چین کے اثر و رسوخ سے باہر آزاد دنیا سے ہوگا۔
دلائی لاما نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی ہمدردی کے لیے وقف کر دی ہے، ’میں اب 90 برس کا ہوں، جب میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی ضائع نہیں کی‘، انہوں نے کہا کہ ’مجھے اپنی موت کے وقت کوئی افسوس نہیں ہو گا، بلکہ میں پُرامن طریقے سے دنیا سے رخصت ہو سکوں گا‘۔