اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر تیار ہیں، جس کے لیے اسرائیل کا ایک وفد قطر بھیجا جائے گا۔
عالمی میڈیا کے مطابق حماس کی جانب سے فوری مذاکرات کی پیشکش کے بعد اسرائیل کا یہ ردعمل سامنے آیا ہے، تاہم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے مسودے میں حماس کی طرف سے تجویز کی گئی تبدیلیاں اسرائیل کےلیے قابلِ قبول نہیں۔
نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ قطر کی جانب سے فراہم کی گئی تجاویز اور حماس کی تبدیلیوں سے گزشتہ شب اسرائیل کو آگاہ کیا گیا تھا، تاہم ان میں سے کئی نکات پر اسرائیل کو اعتراضات ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد نیتن یاہو نے قطری دعوت پر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ یرغمالیوں کی واپسی کےلیے انہی شرائط پر بات آگے بڑھائی جاسکے جن پر اسرائیل پہلے ہی اتفاق کرچکا ہے۔
قطر اور امریکا کی کوششوں سے یہ مذاکرات ایسے موقع پر متوقع ہیں جب 21 ماہ بعد پہلی بار اسرائیل کی قیادت نے اس تنازع کے خاتمے کے لیے نرمی دکھائی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹر ہمدہ سلحوٹ کے مطابق اب تک نیتن یاہو پر صرف اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلِ خانہ اور یورپی اتحادیوں کی جانب سے دباؤ تھا، لیکن اس بار دباؤ کا اصل منبع براہِ راست امریکا ہے، جس کا اثر نیتن یاہو کی حالیہ مشاورتوں سے ظاہر ہورہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم آئندہ رات اپنی کابینہ اور سیکیورٹی حکام کے ساتھ مزید مشاورت کے بعد واشنگٹن روانہ ہوں گے، جہاں وہ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی پر تبادلہ خیال کریں گے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ابتدائی طور پر 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پر اصولی آمادگی ظاہر کی ہے جس پر فوری طور پر بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔
گزشتہ موقف کے برعکس جب نیتن یاہو کا اصرار تھا کہ جنگ بندی کی کوئی تجویز اس وقت تک قبول نہیں کی جاسکتی جب تک حماس کا مکمل خاتمہ نہ ہو اور یرغمالیوں کی رہائی یقینی نہ بنا لی جائے، اب وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کیسے اپنے سکیورٹی اہداف حاصل کر سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق آئندہ چند دنوں میں قطری ثالثی میں جنگ بندی پر عملی مذاکرات کا آغاز متوقع ہے، جس سے غزہ میں جاری خونریزی کے خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔