تحریر: حمزہ خان
ایک دور تھا جب محفلیں گلیوں میں جمتی تھیں، چائے خانوں میں بحث و مباحثہ ہوتا تھا، اور بزرگوں کی محافل میں نوجوان سیکھتے تھے۔ مگر آج کل ہر فرد کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی اسکرین ہے جس نے دنیا کو قریب تو کیا ہے، مگر دلوں کو دُور کر دیا ہے۔ یہ اسکرین سوشل میڈیا کی ہے، جس نے نہ صرف ہماری ترجیحات کو بدلا ہے بلکہ ہمارے رویّے، سوچنے کا انداز، اور بات چیت کا سلیقہ بھی بدل دیا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ہر دوسرا نوجوان فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک یا ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر نظر آتا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ پلیٹ فارم اظہارِ رائے کی آزادی دیتے ہیں، وہیں دوسری طرف یہ عدم برداشت، جھوٹ، افواہوں اور سستی شہرت کا ذریعہ بھی بن چکے ہیں۔
آج کے نوجوان کا ہیرو وہ شخص ہے جو وائرل ہو جائے، چاہے کسی بھی انداز سے۔ کسی استاد یا محقق کا نام کوئی نہیں جانتا، مگر کسی “کانٹینٹ کریئیٹر” کے لاکھوں فالورز ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کی جادوگری ہے کہ اصل اور نقل کا فرق مٹ گیا ہے۔
ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ معمولی باتوں پر قوم دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ کوئی بات علمی انداز میں کرنے کے بجائے، ذاتی حملے کیے جاتے ہیں۔ ہر شخص خود کو “ایکسپرٹ” سمجھتا ہے، چاہے اسے متعلقہ موضوع کی الف ب بھی نہ آتی ہو۔ یہ رویّے صرف آن لائن نہیں، بلکہ حقیقی زندگی میں بھی جھلکنے لگے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے استعمال کو ایک حد میں رکھیں، اور اسے مثبت مقاصد کے لیے بروئے کار لائیں۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ اختلاف رائے کو برداشت کیسے کیا جاتا ہے، اور سچ کو جھوٹ سے الگ کیسے پہچانا جاتا ہے۔
ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم آج انہیں کس راہ پر ڈال رہے ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو شاید سوشل میڈیا کی روشنی میں ہم اپنا اصل اندھیروں میں کھو بیٹھیں گے۔