Tuesday, June 17, 2025
spot_img
ہومپاکستانعدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں، جسٹس محمد علی مظہر

عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں، جسٹس محمد علی مظہر

اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں ہے، سول سروس میں ڈیپوٹیشن یا ملازم کو محکمہ میں ضم کرنے کا اصول ہے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق اہم آئینی کیس کی سماعت کی جہاں درخواست گزار ججز کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے جواب الجواب دلائل دیئے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں مقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی وضاحت کا اطلاق صرف ذیلی سیکشن 3 پر ہوتا ہے، سول سروس میں اگر ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں تبادلہ ہو تو سنیارٹی متاثر ہوتی ہے، جبکہ عدلیہ میں نہ تو ڈیپوٹیشن کا اصول ہے اور نہ ہی کسی جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول رائج ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سول سروس میں ڈیپوٹیشن یا ملازم کو محکمہ میں ضم کرنے کا اصول ضرور موجود ہے، عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں۔جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیئے کہ بھارت میں ججز کے تبادلے کے وقت رضامندی نہیں لی جاتی اور سینیارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اگر رضا مندی لی جا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سنیارٹی میں تبدیلی ممکن ہے۔وکیل نے دلائل دیئے کہ اگر سروس سٹرکچر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کیڈر ایک ہو تو سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، لیکن اگر کیڈر الگ ہو تو سنیارٹی متاثر ہوتی ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہاں معاملہ ججز ٹرانسفرز اور سنیارٹی کا ہے، اس لئے اس پر براہ راست سول سروس رولز کا اطلاق نہیں ہوتا، اگر کسی پر تبادلہ مسلط کیا جائے اور سنیارٹی متاثر ہو تو یہ ناانصافی ہوگی۔بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ابھی دو ہفتے پہلے ہندوستانی ہائی کورٹس میں ججز کے تبادلے ہوئے، دہلی ہائیکورٹ کے سینئر جج کو کرناٹک ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے متفرق درخواست دائر کی۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ آیا انہوں نے کوئی درخواست دائر کی ہے؟ جس پر امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے 1947 سے 1976 تک ججز ٹرانسفر کی مکمل تاریخ پیش کی ہے، ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے بلکہ آرٹیکل 27 اے کے تحت نوٹس جاری ہوا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ 27 اے کا نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے، آپ کو اٹارنی جنرل کے بعد دلائل دینے چاہیے تھے، آپ کو نہیں معلوم کہ 27 اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟ جب لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے اپنے کمنٹس جمع کرائے ہیں تو آپ اس کیس میں مرکزی فریق ہیں۔بنچ نے ہدایت کی کہ بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل کو سنا جائے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی، انہوں نے استفسار کیا کہ اگر کوئی جج ہائی کورٹ میں تبادلے پر آجائے تو اس کی پہلی سنیارٹی کا کیا ہوگا؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ صدر کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے یا اپنا اختیار آزادانہ استعمال کرنا ہے۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے تو کیا صدر کو ذہن استعمال کرنا ہے؟ قاضی فائز عیسی کیس میں قرار دیا گیا کہ صدر کو اپنا ذہن استعمال کرنا چاہیے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر جوڈیشل کونسل کسی جج کو برطرف کرنے کی سفارش کرے تو کیا صدر ذہن استعمال کرے گا؟ جس پر صلاح الدین نے جواب دیا کہ سیاسی حکومت کی ایڈوائس پر صدر کو ذہن اپلائی کرنا ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر جج کے تبادلے کا عمل رضامندی سے نہ ہو تو سارا عمل کالعدم ہو جائے گا، اگر جج رضامندی دے بھی دیں لیکن جس ہائی کورٹ میں جانا ہے وہاں کا چیف جسٹس انکار کر دے تو بھی تبادلہ ممکن نہیں، اسی طرح اگر چیف جسٹس پاکستان انکار کر دیں تب بھی تبادلہ ممکن نہیں ہوگا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت میں تمام بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے، لیکن صدر کے اختیار کے استعمال سے پہلے جتنا پراسس ہے اس پر کسی نے کچھ نہیں کہا، آئین میں لکھی ہر لائن کا ایک مقصد ہے۔انہوں نے استفسار کیا کہ اگر جوڈیشل کمیشن کسی کو جج نامزد کرے تو کیا صدر تقرری سے انکار کر سکتا ہے؟۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 206 کے تحت اگر ہائی کورٹ کا جج سپریم کورٹ کا جج بننے سے انکار کرے تو وہ ریٹائر تصور ہوگا، جب پاکستان میں ون یونٹ بنا تو اس وقت سنیارٹی کا ایشو بھی سامنے آیا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اپنی گزارشات میں نیا نکتہ اٹھایا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ رولز کے مطابق انتظامی کمیٹی میں تین سینئر ججز شامل ہوتے تھے، ٹرانسفر کے بعد جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم سومرو کمیٹی میں شامل ہوگئے، جبکہ ان کے پاس صرف دو دن کا تجربہ تھا، بعد ازاں رولز میں ترمیم کی گئی اور چیف جسٹس کے ساتھ دو دیگر ججز کو کمیٹی میں شامل کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے ججز کی انتظامی کمیٹی زیربحث لانے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ ہائی کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یہ سوال عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا تھا، مگر جواب نہیں ملا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ نکتہ کیس کا حصہ نہیں، اس لئے زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ یہ تو ٹرانسفر کے بعد کی پیشرفت ہے، جس سے عدالت کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔سماعت کے اختتام پر بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل مکمل کئے، جس کے بعد لاہور بار کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے اور جواب الجواب شروع کیا۔بعدازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، لاہور بار کے وکیل حامد خان کل اپنا جواب الجواب مکمل کریں گے اور دیگر درخواست گزاروں کے وکلا کو بھی کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔