اسلام آباد:سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف حکومتی نظرثانی درخواستوں کی جمعرات کو بھی سماعت ہوئی ۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دئے۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا جج آئینی اسکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟ جمہوریت کیلئے ہی سہی، مگر کیا جج آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کوئی آئین “ری رائٹ “ نہیں کیا گیا۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ری رائٹ کیا گیا، تین دن کی مدت کو بڑھا کر پندرہ دن کیا گیا۔
سماعت کے دوران فیصل صدیقی نے کہا کہ کچھ فریقین نے اضافی گزارشات جمع کروائی ہیں جن کی نقول انہیں آج ملی ہیں اور وہ ان کو دیکھیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ن لیگی وکیل سے سوال کیا کہ ایک جماعت کے امیدواروں کو آزاد کیسے قرار دیا گیا؟ اور کیا انہوں نے اپنی تحریری گزارشات میں اس کا جواب دیا؟ جس پر وکیل حارث عظمت نے کہا کہ جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ کچھ درخواستوں میں سپریم کورٹ رولز کو مدنظر نہیں رکھا گیا، اس لیے ان درخواستوں کو مسترد کیا جائے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ان سے پوچھا گیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان کیا ہے، جس پر انہوں نے بتایا کہ نشان گھوڑا ہے، مگر حامد رضا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ اس کا جواب دیں گے کہ حامد رضا آزاد حیثیت میں کیوں لڑے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں کہ کون کیسے لڑا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انہیں سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ صاحبزادہ حامد رضا کی 2013 سے سیاسی جماعت موجود ہے، اور جو جماعت الیکشن لڑے وہی پارلیمانی پارٹی بناتی ہے، تو پھر وہ اپنی جماعت سے نہیں لڑے تو پارلیمانی جماعت کیوں بنائی؟
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کہا گیا کہ ووٹ بنیادی حق ہے، جبکہ ووٹ بنیادی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے میں تین دن کی مدت کو بڑھا کر 15 دن کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے جیسا تھا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ گیارہ ججز نے آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا تسلیم کیا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 39 امیدواروں کی حد تک وہ اور قاضی فائز عیسیٰ بھی آٹھ ججز سے متفق تھے، اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اقلیتی ججز نے بھی انہی گراونڈز پر پی ٹی آئی کو مانا جن پر اکثریتی ججز نے مانا تھا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ اب نظرثانی درخواستوں میں ان اقلیتی فیصلوں پر انحصار کیا جا رہا ہے، جبکہ ان درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کو ریلیف مل ہی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نظرثانی ان فیصلوں پر انحصار کر کے کیسے لائی جا سکتی ہے جبکہ ان فیصلوں میں تو پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا گیا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ نظرثانی لانے والوں نے تو جس فیصلے کو چیلنج کیا، اسے ہمارے سامنے پڑھا ہی نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا جج آئینی اسکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟ عوامی امنگوں اور جمہوریت کے لیے ہی سہی، مگر کیا جج آئین ری رائٹ کر سکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کوئی آئین ”ری رائٹ“ نہیں کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ری رائٹ کیا گیا، تین دن کی مدت کو بڑھا کر 15 دن کیا گیا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں، اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو جان بوجھ کر حقوق نہیں دیے گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جمہوریت کی بات کی گئی ہے، تو کیا امیدواروں کا اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا جمہوریت نہیں؟ کسی کو زبردستی دوسری جماعت میں شمولیت پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جو آزاد امیدوار کسی اور پارلیمانی جماعت میں جانا چاہیں، جا سکتے ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ اس ساری صورتحال میں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہے، اور الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد قرار دیا۔
فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ اکثریتی ججز نے کہا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہئیں۔ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ آپ اپنے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں کہ نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں یا کسی اور کو۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کی فلم تو پھر فلاپ ہو جائے گی، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ فلم آپ کی مرضی سے فلاپ ہونی ہے، آپ کا فیصلہ قبول ہو گا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں، اور یہ پہلا موقع ہے کہ 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس فیصلے پر نظرثانی آئی وہ ابھی تک عدالت کے سامنے پڑھا ہی نہیں گیا، اور عدالت سے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ کہا جا رہا ہے اکثریتی فیصلہ نظرثانی میں پڑھا ہی نہ جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کو کس نے روکا ہے فیصلہ پڑھنے سے؟ کیوں گلہ کر رہے ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی کیس کے فیصلے کے بعد بھی ایک جماعت تھی، اور اس معاملے پر پی ٹی آئی کو کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔ اگر غلط فہمی ہوتی تو وہ پارٹی سرٹیفکیٹ جاری نہ کرتے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ پورا پاکستان دیکھ رہا ہے، وہ اقلیتی فیصلہ بھی پڑھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جسٹس امین کے فیصلے سے متفق نہیں مگر وہ ایک ”فورس فل“ فیصلہ تھا۔ فیصل صدیقی نے جسٹس امین کے فیصلے پر غالب کا شعر بھی سنا دیا: ”کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب، گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا“۔
جسٹس امین الدین سے فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کی چیل کی طرح مجھ پر نگاہ ہے، جس پر جسٹس امین نے کہا کہ اس کے باوجود آپ اتنا وقت لے رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تعریف کرنا ویسے کوئی آپ سے سیکھے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ سوری، چیل نہیں، عقاب کی طرح بولنا تھا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ تحریک انصاف کو انتخابات لڑنے سے روکا گیا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین سے بتا دیں کہ جماعت انتخابات لڑتی ہے یا امیدوار؟ کیسے کہہ رہے ہیں کہ پارٹی انتخابات میں حصہ لیتی ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پارٹی کے امیدوار انتخابات لڑتے ہیں، اور مشترکہ نشان کا یہی مطلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کے پاس انتخابات لڑنے کا حق بھی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ کوئی امیدوار اگر پارٹی کے نشان پر انتخابات لڑنا چاہتا ہے تو پارٹی سے امیدوار سرٹیفیکیٹ لے گا۔
عدالت نے کیس کی سماعت 16 جون تک ملتوی کر دی۔