Thursday, April 24, 2025
ہومپاکستانسندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر

سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر

تحریر۔۔حافظ احسان احمد کھوکھر،ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور ممتاز ماہرِ آئینی و بین الاقوامی قانون
بھارت کی مسلسل پاکستان دشمنی اور دو طرفہ و بین الاقوامی وعدوں کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر، سندھ طاس معاہدے اور شملہ معاہدے کی معطلی جیسے حالیہ اقدامات کا قانونی جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ یہ دونوں معاہدے پاک بھارت تعلقات کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں، اور بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کا موقف اصولی، مضبوط اور قابلِ دفاع ہے۔سندھ طاس معاہدہ، جو 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کی ضمانت کے ساتھ طے پایا تھا، ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج)بھارت کے اختیار میں دیے گئے، جبکہ مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب)پاکستان کے حق میں مخصوص کیے گئے، کچھ شرائط کے ساتھ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کے آرٹیکل کے مطابق، یہ معاہدہ دونوں حکومتوں کی باہمی رضا مندی کے بغیر ختم نہیں ہو سکتا۔
اس کا مطلب ہے کہ بھارت کی جانب سے اس معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کی کوئی بھی کوشش نہ صرف قانونی طور پر غلط بلکہ بین الاقوامی سطح پر ناقابلِ قبول ہوگی۔معاہدے میں کسی بھی فریق کو یکطرفہ علیحدگی کی اجازت نہیں دی گئی۔ صرف تین صورتیں ممکن ہیں: معاہدے کو جاری رکھنا، اسے باہمی ترمیم کے ذریعے بدلنا، یا باہمی رضا مندی سے ختم کرنا۔ اس سے ایک قانونی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ معاہدے میں تبدیلی صرف بات چیت سے ممکن ہے، زبردستی یا یکطرفہ فیصلے ممنوع ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل یا ختم کرنے کی دھمکیاں دی ہوں۔ بھارت کے کئی عہدیدار پاکستان کو دیے گئے پانی کے بہا کو موڑنے کے بیانات دے چکے ہیں، یہ بیانات نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی ہیں بلکہ دشمنی کے مترادف ہیں۔ پاکستان نے ان کے جواب میں قومی سلامتی کمیٹی کے ذریعے ثبوتوں کے ساتھ مقف اپنایا ہے اور ان اقدامات کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں اور خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو کمزور یا نظرانداز کرنے کی کوششیں بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔
چونکہ عالمی بینک اس معاہدے کا ضامن ہے، اس لیے اس کی کثیر الجہتی حیثیت اور بھی اہم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کو قانونی، سفارتی اور ثالثی کے بین الاقوامی فورمز پر ان بھارتی اقدامات کو چیلنج کرنے کے کئی راستے موجود ہیں۔پاکستان کو قانونی سطح پر سرگرم حکمتِ عملی اپنانا ہوگی، جس میں معاہدے کے ضمیمہ ایف اور جی کے تحت تنازع کے حل کے طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں، جیسے کہ غیرجانبدار ماہر کی تقرری یا بین الاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع۔ بھارت کی مسلسل خلاف ورزیوں کے پیش نظر، پاکستان اقوام متحدہ اور عالمی بینک کو بھی متحرک کر سکتا ہے تاکہ معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔شملہ معاہدے (1972) کی پاکستان کی جانب سے حالیہ معطلی نہ صرف قانونی طور پر درست ہے بلکہ یہ بہترین سفارتی طور حکمتِ عملی ہے ۔ بھارت نے دہائیوں تک اس معاہدے کو استعمال کر کے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر لانے سے روکا، اور صرف دو طرفہ مذاکرات پر زور دیا۔
تاہم، بھارت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی، مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس معاہدے کو بے اثر کر چکی ہیں۔شملہ معاہدے کی معطلی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اہمیت ایک مرتبہ پھر واضح ہوتی ہے، جو کشمیری عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کے تعین کے لیے رائے شماری کا حق دیتی ہیں۔ اس معطلی کے بعد پاکستان پر اب صرف دوطرفہ مذاکرات کی پابندی نہیں رہی اور وہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سفارتی اور قانونی سطح پر دوبارہ اجاگر کر سکتا ہے۔بھارت کی جارحانہ پالیسیوں، جھوٹے حملوں، غلط معلومات کی مہم اور ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔
پلوامہ حملہ اور بالا کوٹ فضائی کارروائی جیسے واقعات، جنہیں زیادہ تر سیاسی چالیں سمجھا گیا، بھارت کے خطرناک رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔سندھ طاس معاہدے اور کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا قانونی موقف بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں مضبوط ہے۔ عالمی برادری، خاص طور پر عالمی بینک اور اقوام متحدہ، کو چاہیے کہ بھارت کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ پاکستان کو قانونی مہم، سفارتی چالاکی، اور اصولی مزاحمت کے ذریعے اپنی خودمختاری اور علاقائی امن کا دفاع جاری رکھنا ہوگا۔وہ اس بات کو دہراتے ہیں کہ انڈس واٹرز معاہدے پر پاکستان کا موقف قانونی طور پر مضبوط ہے، اور شملہ معاہدے کی معطلی نہ صرف قانونی ردعمل ہے بلکہ ایک ضروری حکمتِ عملی بھی، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا موثر جواب ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔