بیجنگ :گزشتہ سال 13اگست کو، چین کے صوبہ ہوبے کی شیاوچینگ کاؤنٹی کے سول افیئرز بیورو کے ملازم چینگ زو ہینگ کو تخفیف غربت ڈیٹا مانیٹرنگ پلیٹ فارم کا جائزہ لیتے ہوئے گانگ بین گاؤں میں کم آمدنی والے کسان ژانگ چوان (فرضی نام) کے خاندان کے 200,000 یوآن سے زیادہ کے طبی اخراجات کا معلوم ہوا۔ یہ رقم مقامی دیہی باشندوں کی سالانہ فی کس قابل تصرف آمدنی سے کہیں زیادہ تھی، جس کی وجہ سے پلیٹ فارم نے الرٹ جاری کیا۔ چینگ نے فوراً مقامی سول افیئرز آفس کے عملے کے ساتھ رابطہ کیا اور ژانگ کے گھر جا کر صورت حال کا جائزہ لیا۔ بیماری کی وجہ سے مشکلات کی تصدیق کے بعد، عملے نے فوری طور پر ژانگ کے لیے عارضی امداد کے طور پر 4,900 یوآن کی درخواست کی۔ کم آمدنی والے خاندان کے طور پر، ژانگ کے طبی اخراجات کو بنیادی صحت انشورنس اور سنگین بیماریوں کی انشورنس کے بعد طبی امداد کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا۔
جلد ہی، ژانگ کو طبی امداد کی رقوم موصول ہوئی، اور ان کے تین زیر تعلیم بچوں کو تعلیمی امداد بھی ملی، جس سے یقینی بنایا گیا کہ ان کا خاندان بیماری کی وجہ سے غربت کا شکار نہ ہو۔ 8 مارچ کو، چین کی 14ویں قومی عوامی کانگریس کے تیسرے اجلاس کے دوران “منسٹرز کوریڈور” کے دوسرے سیشن میں،وزیر برائے زراعت اور دیہی امور ہان جون نے انسداد غربت کامیابیوں کو مستحکم کرنے کے حوالے سے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ 2020 میں غربت کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد، مرکزی حکومت نے 2021 سے 2025 تک کے لیے پانچ سالہ عبوری دور مقرر کیا ہے تاکہ غربت کے خلاف کامیابیوں کو مضبوط کیا جا سکے اور اسے دیہی احیا کے عمل کے ساتھ مؤثر طریقے سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
وزارت زراعت ہر سال غربت کے خطرے سے دوچار گروہوں کی نگرانی کرتی ہے، انہیں تین زمروں (غربت سے نجات پانے والے غیر مستحکم گھرانے، غربت سے قریبی دوچار گھرانے، اور اچانک سنگین مشکلات کا شکار گھرانے) میں تقسیم کیا گیا ہے، اور بگ ڈیٹا پر مبنی پلیٹ فارم کے ذریعے نشاندہی شدہ گھرانوں کو درست امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ہان نے اس بات پر زور دیا کہ دیہی احیا جدید سوشلسٹ ملک کی ہمہ جہت تعمیر کے لئے ایک اہم تزویراتی کام ہے ، اور غربت کے خاتمے کی کامیابیوں کو مستحکم اور وسیع کرنا دیہی احیا کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہمیں زراعت اور دیہی علاقوں کی ترجیحی ترقی، شہری اور دیہی علاقوں کی مربوط ترقی، دیہی اصلاحات کو گہرا کرنے اور دیہی احیا کے ثمرات سے زیادہ سے زیادہ کسانوں کو فائدہ پہنچانے کی ضرورت ہے۔چین کی غربت کے خلاف جنگ کی سب سے نمایاں خصوصیت سوشلسٹ نظام کی انسانی ہمدردی ہے۔ اور اس جدوجہد کی سب سے متاثر کن کہانی، غربت کے خاتمے کے سفر میں “کسی کو بھی پیچھے نہ چھوڑنا” کے مقدس وعدے کی تکمیل سے رقم کی گئی ہے۔ چین کی غربت کے خلاف جدوجہد نے انسانی ترقی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے؛ اور اس کے ساتھ ساتھ دیہی ترقی کی حکمت عملی، تہذیب کی ترقی کے گہرے مفہوم کو واضح کرتی ہے، جس کے ذریعے چین صنعتی عمل میں شہری اور دیہی تعلقات کا ایک نیا ماڈل لکھ رہی ہے، “ترقیاتی اقدامات سے غربت کے خاتمے” اور “باٹم لائن کی ضمانت ” کے دوہرے محرک کے ساتھ، غربت میں کمی کا پائیدار راستہ تلاش کیا گیا ہے، اور سوشلسٹ نظام کی برتریوں کے ذریعے عوام کے ذریعہ معاش کی بنیاد کو مضبوط کیا گیا ہے۔
یہ بھی مضبوطی سے ثابت کیا گیا ہے کہ سوشلزم نہ صرف معاشی معجزات پیدا کر سکتا ہے، بلکہ انسانی تہذیب کی ایک نئی شکل بھی پروان چڑھا سکتا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رائج سوشل ڈارونازم کے برعکس ، سوشلزم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ریاست اور سماج سب کے لئے بقا کی نچلی حد کو بڑھانے کے لئے مل کر کام کریں ، اور یہ کہ ہر فرد اپنی زندگی کی بالائی حد کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ، اور اگر وہ ناکام ہوجاتا ہے تو ، ریاست کی طرف سے فراہم کردہ عوامی خدمات اس کی بنیادی روزی روٹی کی ضمانت دیتی ہیں اور ، جہاں تک ممکن ہو ، اسے ” ایک بار پھر راستے پر واپس آنے” کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یقیناً ایسا بیانیہ سوشلسٹ نظریے کے گہرے مفہوم کو مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا، لیکن جب لوگ چین میں غربت کے خاتمے کے شاندار عمل کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو وہ واقعی اس سادہ جملے کے پیچھے طاقتور روحانی قوت کو محسوس کر سکتے ہیں: “کسی کو بھی پیچھے نہ چھوڑنا”! یہ سوشلسٹ نظام کے روشن ترین آئیڈیلزم اور انسان دوست گرم جوشی کا واضح اظہار ہے۔