نئی دہلی (سب نیوز )دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد دفاعی معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بہت عرصے سے بھارت کو اپنے دفاعی سامان فروخت کرنے کی کوشش کر ریا تھا، جس میں جنگی طیارے، ٹرانسپورٹ طیارے اور سرویلنس جہاز شامل ہیں۔انھوں نے بتایا کہ انڈین فضائیہ نے سنہ 2019 سے 114 جنگی طیاروں کا ٹینڈر جاری کر رکھا ہے، اس کنٹریکٹ کے مطابق 16 طیارے مکمل تیار حالت میں آنے ہیں اور باقی 98 طیارے بھارت میں لائسنس کے تحت بننے اور اسمبل کیے جانے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ جس دفاعی معاہدے کی بات ہوئی یہ وہی پرانا کنٹریکٹ ہے یا وزیر اعطم مودی نے کسی نئے معاہدے کی بات کی۔راہل بیدی نے مزید بتایا کہ ایف 35 انتہائی جدید نوعیت کا جنگی طیارہ ہے اور ابھی تک اس کے بارے میں بات چیت نہیں ہوئی تھی۔بھارت کا 114 جنگی طیارے لینے کا جو منصوبہ تھا اس کی مالیت 25 سے 30 ارب ڈالر کی تھی۔ ایف 35 بہت مہنگا جنگی طیارہ ہے۔ اگر یہ بھی معاہدے میں شامل کیا گیا تو اس کی مالیت اس سے تجاوز کر جائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ جنگی طیاروں کے علاوہ ملٹری ٹرانسپورٹ طیارہ سی 130 جے اور بحریہ کے لیے سرویلینس طیارہ پی 8 آئی خریدنے کی بات چیت بھی چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ انفینٹری کمبیٹ ویکل اسٹرائیکر کی خریداری کی بھی بات چیت چل رہی ہے۔راہل کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاس سات طرح کے جنگی طیارے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے الگ الگ سروس سینٹر اور مرمت کے کارخانے وغیرہ کا انتطام کرنا پڑتا ہے۔کچھ عرصے پہلے تک فضائیہ کے اعلی افسران امریکی جنگی طیارے خریدنے کے حق میں نہیں تھے۔
بھارت کے خارجہ سکریٹری وکرم مسری نے ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد ایک نیوز بریفنگ میں ایف 35 کی خریداری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جنگی طیارے خریدنے کا ایک طویل عمل ہوتا ہے۔راہل بیدی کے خیال میں انڈیا کے ذریعے اس جدید طیارے کی خریداری کا عمل ابھی شروع نہیں ہوا اور اس لیے اس مرحلے میں ہم اسے صرف ایک پیشکش اور تجویز کہہ سکتے ہیں
بھارت میں دونوں رہنماں کی ملاقات کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر اسے ایک بہت کار آمد اور مفید دورہ قرار دیا گیا تاہم بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار نیانیما باسو کہتی ہیں کہ یہ دورہ بھارت سے زیادہ امریکا کے حق میں رہا ہے۔ امریکا نے دفاعی ساز وسامان کی فروخت کے معاملے پر بہت زیادہ توجہ دی۔ بھارت میں جنگی جہازوں کی خریداری کا عمل بہت لمبا ہوتا ہے۔ بھارتی فضائیہ کی ایسی بہت سی تجاویز پہلے سے برسوں سے پھنسی ہوئی ہیں۔
ان حالات میں امریکا کا یہ کہنا کہ وہ ایف 35 دینے والے ہیں۔ میرے خیال میں بھارتی دبا میں آ گیا۔ ہم نے وزیر اعظم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ دفاع کو سینٹر پوائنٹ پر رکھنا چاہتے ہیں۔دونوں ممالک ڈیفینس کوآپریشن فریم ورک کو دس سال کے لیے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے تحت بہت ساری دفاعی فروخت ہونے والی ہے۔نیانیما کہتی ہیں کہ جہاں تک امریکہ سے تیل اور گیس خریدنے کی بات ہے تو امریکہ چاہتا ہے کہ انڈیا روس سے تیل خریدنا بند کر دے۔
انھوں نے کہا کہ روس اس وقت بھارت کو تیل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لیے روس سے خریداری فورا بند کرنا ممکن نہیں ہو گا لیکن مشترکہ اعلامیے میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ امریکہ انڈیا کو تیل سپلائی کرنے والا بڑا سپلائر بننا چاہتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا کا تیل روس اور کئی دوسرے ملکوں سے مہنگا ہے۔
نیانیما کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ سکیورٹی کے سوال پر چین کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بین اقوامی امور میں چین کا اہم کردار ہے۔ انھوں نے کہا کہ چین کے صدر شی جن پنگ ایک سمبھدار رہنما ہیں۔ چین کے ساتھ انڈیا کا سرحدی تنازعہ ابھی حل نہیں ہوا۔ انڈیا کو چین کو بھی پارٹنر بنا کر چلنا ہے اور اس سے کاروبار بھی دوبارہ شروع ہو چکا۔
تجزیہ کار نیانیما کہتی ہیں کہ امریکا اور انڈیا اسٹریٹیجک پارٹنرز ہیں اس لیے یہ توقع تو تھی ہی کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت سے شعبوں میں معاہدے اور معاہدے ہوں گے تاہم ان کے خیال میں انڈین حکومت مودی کے اس دورے کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرے گی لیکن آئندہ چار برس بھارت اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے بہت دلچسپ ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت کے لیے آئندہ چار پانچ برس تک خارجہ پالیسی میں یہ چیلنج رہے گا کہ ایک طرف وہ چین اور روس کے ساتھ کس طرح نبھاتا ہے اور دوسری جانب وہ امریکا کے ساتھ کیسے ڈیل کرتا ہے۔ یہ آئندہ برسوں میں بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہے گا۔
نیانیما کہتی ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں کواڈ سربراہی اجلاس ہونے والا ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ انڈیا آئیں گے اور وہ اجلاس چین سے تعلقات میں تلخی کا ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔
غیرقانونی بھارتی تارکین کو لانے والے امریکی فوجی جہاز کی امرتسر میں لینڈنگ
وہ کہتی ہیں کہ ایک طرف چین اور روس ہیں اور دوسری جانب امریکا اور اب اس میں اسرائیل کا پہلو شامل ہو گیا ہے۔ بھارت ان کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بھارت کس طرح ان سے تعلقات میں توازن پیدا کر پاتا ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعطم نریندر مودی نے غیر قانونی تارکین وطن کے سوال پر صدر ٹرمپ کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیج دے۔
یاد رہے کہ امریکا سے 104 غیرقانونی بھارتی تارکین وطن کو لے کر ایک امریکی فوجی طیارہ فروری کے پہلے ہفتے میں انڈیا پہنچا تھا۔