Wednesday, February 5, 2025
ہومبریکنگ نیوزسال 2024:پاکستان کیلئے سیاست،معیشت،سفارت ہر شعبے میں چیلنجنگ رہا،سال کے چند نمایاں ترین واقعات پر ایک نظر،سب نیوز پر

سال 2024:پاکستان کیلئے سیاست،معیشت،سفارت ہر شعبے میں چیلنجنگ رہا،سال کے چند نمایاں ترین واقعات پر ایک نظر،سب نیوز پر

لاہور(آئی پی ایس ) گزشتہ کئی سالوں کی طرح وطن عزیز کیلئے یہ سال بھی مختلف چیلنجز سے بھرپور رہا۔اس سال کا آغاز بھی سیاسی ہنگاموں اور ہلچل کے ساتھ ہوا اب اس کیاختتام کا منظر نامہ بھی کچھ مختلف نہیں کیونکہ ملک میں ہونے والے 8 فروری کے عام انتخابات سیاسی منظرنامے پر اس سال کی بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔سال 2024 اسلام آباد سمیت پورے ملک میں پہلے سے پھیلی سیاسی بے یقینی کی کیفیت، خاص طور پر عام انتخابات کی صورتحال کے حوالے سے شروع ہوا، پی ٹی آئی کی عام انتخابات میں شرکت کے بارے میں شکوک و شبہات، انتخابات میں کئی ماہ کی تاخیر اور غیریقینی صورتحال نے ماحول کو مزید کشیدہ بنایا ہوا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کو ایک بڑا دھچکا 13 جنوری کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لگا جس میں اعلی عدالت نے الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اس کے انتخابی نشان “بلے سے محروم کرگیا جس سے پارٹی کو انتخابی میدان میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بغیر بلے کے نشان کے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں مختلف نشانوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینا پڑا جس نے ان کی انتخابی مہم کو شدید متاثر کیا۔ 8 فروری 2024 کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے عام انتخابات منعقد ہوئے، انتخابات کے دن بھی سیاسی افراتفری اور سکیورٹی کے مسائل مزید تشویش کا باعث بنے رہے

، اس کے بعد ملک بھر میں حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش نے عوامی غم و غصے کو مزید بڑھاوا دیا۔ مذکورہ نتائج بعد کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی جس کے باعث سیاسی جماعتوں کے درمیان کئی ہفتوں کی مشاورت کے بعد ایک نئی مخلوط حکومت تشکیل پائی۔ 8فروری کے عام انتخابات میں کامیاب امیدواروں کی سب سے زیادہ تعداد پی ٹی آئی کی تھی، لیکن چونکہ اس جماعت کو سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا، لہذا مخلوط حکومت بنانے کیلیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مل کر ایک اتحاد بنایا۔ سال 2024 میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی، مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی منتخب ہوئیں، مریم نواز جارحانہ سیاست کی علمبردار، لہجہ بھرپور، سیاسی حکمت عملی بھی شاندار ہے

، مریم نواز نے تعلیمی اداروں میں اپنی تقاریر سے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی فتح اور وزیراعظم شہباز شریف کے حکمران اتحاد کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا جس سے تحریک انصاف ممکنہ طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی لیکن اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ سال 2024کے آغاز میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو عدالت کی جانب سے مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں۔ 30جنوری کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10 سال قید کی سزا، 31 جنوری کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کو 14 سال کی سزا اور 3فروری کو “غیر شرعی نکاح کے مقدمے میں7،7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جولائی میں ٹرائل کورٹ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو متعدد مقدمات میں بری کردیا لیکن ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ مزید نئے مقدمات کے تحت جاری رہا۔

حکومت نے عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کو مئی2023 کے پرتشدد واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کیخلاف عوامی اور فوجی املاک پر حملوں کے الزامات کے تحت مزید مقدمات قائم کیے۔ اس کے علاوہ 12اگست کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو حراست میں لے لیا گیا، جس کے بعد ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات کی سماعت کا آغاز ہوا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل (ر) فیض حمید کے مبینہ طور پر 9مئی کے حملے کی منصوبہ بندی میں کردار ادا کرنے کی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ 10دسمبر کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے تحت باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی۔

یہ اقدام پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کیا گیا اور الزامات میں مبینہ طور پر زمین پر قبضے، ایک نجی ہاسنگ سوسائٹی سے قیمتی اشیا کی ضبطی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات شامل ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر نو مئی کے فسادات سمیت بدامنی پیدا کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں جو انہوں نے مبینہ طور پر سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر کیاکتوبر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی ملاقاتوں کے نتیجے میں 20 اکتوبر کو 26 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی۔ مذکورہ 26ویں ترمیم پارلیمنٹ کو تین سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس آف پاکستان کے انتخاب کا اختیار دیتی ہے اور چیف جسٹس کے سو موٹو اختیارات کو محدود کرتی ہے

، یہ ترمیم پاکستان کی عدالتی نظام کے لیے ایک اہم تبدیلی کی علامت ہے۔ 26اکتوبر کو جسٹس یحیی آفریدی پاکستان کے 30ویں چیف جسٹس مقرر ہوئے جو ایک خاص پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے تحت منتخب کیے جانے والے پہلے چیف جسٹس ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف جو حکومت کی مرکزی سیاسی مخالف جماعت ہے نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار کو غیر آئینی قرار دیا اور عدالتی اصلاحات کو چیلنج کرنے کے لیے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔ اگر سال 2024کو احتجاج کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ پورا سال احتجاجی مظاہروں کے دوران گزرا جو زیادہ تر پی ٹی آئی کی قیادت میں کیے گئے۔ پی ٹی آئی نے اپنے چار بنیادی مطالبات کے تحت ان مظاہروں کا انعقاد کیا ان مطالبات میں کہا گیا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کیا جائے

، جمہوریت اور آئین کی بحالی عوامی مینڈیٹ کی واپسی کے علاوہ بے گناہ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ عام انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے مختلف سیاسی جماعتوں میں عدم اطمینان کا احساس پیدا کیا، جس کے نتیجے میں مظاہروں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا، جنہیں “اینٹی ریگنگ مظاہرے کہا گیا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) جو پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اتحادی رہ چکی ہے اور دیگر کئی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے الزامات لگائے کہ یہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔ رواں سال نومبر کے شروع میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 3 سے بڑھا کر 5 سال کے حوالے سے ترمیمی بل منظور کیا گیا ۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔