بیجنگ : فلپائنی بحریہ کے سربراہ نے حال ہی میں کھلے عام اعلان کیا کہ انہوں نے بحیرہ جنوبی چین میں چینی جہازوں کی کارروائیوں سے نمٹنے کے لئے’’گرے زون‘‘کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے فلپائن بحیرہ جنوبی چین میں ’’گرے زون‘‘کی حکمت عملی پر عمل درآمد کر رہا ہے، چاہے وہ تحفظ حقوق کے نام پر چائنا کوسٹ گارڈ کے ساتھ ’’مقابلہ ‘‘ہو یا رائے عامہ کی تشہیر ۔ مثال کے طور پر ، کو پوشیدہ رکھنے کے لیے شہریوں کا استعمال”، “معاشی دھمکی”، نام نہاد سائنسی تحقیق کے نام پر قبضے کے ارادوں کو چھپانا، چین کے خلاف تفہیم کی جنگ چھیڑنا، اور بڑھاوا دینے کے لئےبین الاقوامی میڈیا کا استعمال کرنا وغیرہ۔ گزشتہ ایک سال کے دوران سی این این اور نیویارک ٹائمز جیسے امریکی میڈیا بحیرہ جنوبی چین میں فلپائن کی جانب سے تقریباً ہر اشتعال انگیزی پر موجود تھے۔
واضح رہے کہ امریکہ “گرے زون” کی حکمت عملی کو نام نہاد’’بحرہند و بحرالکاہل کی حکمت عملی‘‘ کے نفاذ کو فروغ دینے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتا ہے، اور اسے سفارتی، اقتصادی اور علمی جنگ جیسے بہت سے شعبوں میں انجام دیتا ہے، اور فلپائن اس پورے سلسلے کا صرف ایک حصہ ہے. تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ اور فلپائن کے پاس بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر چین کے خلاف مشترکہ طور پر “گرے زون” کی حکمت عملی نافذ کرنے کے متعدد منصوبے ہیں، لیکن عملی طور پر ان پر عمل درآمد آسان نہیں ہے۔ سب سے پہلے،ہر ایک ملک فلپائن کی موجودہ حکومت کی طرح اپنے قومی مفادات کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کرتا ہے.
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ’’گرے زون ‘‘کی حکمت عملی آسیان ممالک کی امن و ترقی کی امنگوں کے منافی ہے۔ آخر کار ،’’گرے زو‘‘ حکمت عملی کی قیمت کون ادا کرے گا؟ یقیناً امریکہ سمیت متعلقہ فریق بخوبی جانتے ہیں۔