تحریر امبرین علی
انیس سو چالیس موسمیاتی ریکارڈ کو اکٹھا کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس سال موسم گرما میں گرمی کی شدت کو خاصا محسوس کیا اور ہیٹ ویو کی بھی جہی اسپییلز آئے جون سے اگست کے دوران دنیا کا درجہ حرارت گزشتہ برسوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ دیکھنے میں آیا۔
یورپی موسمیاتی ادارے کے مطابق رواں سال موسم گرما کے دوران اوسط درجہ حرارت انیس سو اکانوے سے دو ہزار بیس کے مقابلے میں صفر اعشاریہ انہتر ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔دو ہزار تئیس میں یہ درجہ حرارت آفر اعشاریہ تین ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔اگست دو ہزار چوبیس کو آسٹریلیا کا گرم ترین اگست قرار دیا گیا جس دوران درجہ حرارت اکتالیس اعشاریہ چھ ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، حالانکہ وہاں ابھی موسم سرما چل رہا ہے۔
دنیا بھر میں اس سال گرمیوں میں شدید گرمی محسوس کی گئی جبکہ پاکستان میں بھی ہیٹ ویو کے کئی اسپیل آئے جنھیں برداشت کرنا تقریبا نا ممکن رہا۔اس سال بارشیں تو جیسی روٹھ ہی گئیں موسم سرما کا آغاز ہو چکا مگر بارش نہ ہونے کے باعث خشک سردی بھی برداشت کرنا مشکل ہو چکا ہے ۔جبکہ نومبر کی بات کی جائے تو رواں برس کے نومبر میں بھی گرمی کا اثر محسوس کیا گیا ایک رپورٹ کے مطابق یہ نومبر گذشتہ 64 برسوں میں گرم ترین نومبر کا ماہ تھا۔ان موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے نومبر سے آزربائیجان کے دارالحکومت باکو میں شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 29) میں دنیا بھر سے آنے والے مندوبین اقوام متحدہ کے حکام، سول سوسائٹی اور دیگر اہم شعبوں کے نمائندوں کے ساتھ مل کر اس معاملے میں اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیااور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بہترین طریقہ ہائے کار پر بات چیت کی گئی جسمیں کلائمٹ فنانسنگ پر زور دیا گیا ۔تاہم یورپی یونین، امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے 2035 تک سالانہ بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو 300 ارب ڈالر فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں کلائمیٹ پر بڑی تیزی کے ساتھ اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے۔ رواں برس، مارچ میں وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا تھا۔ اس موقعے پر وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی میں سب سے کم کردار ادا کرتے ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔‘ ایک رپورٹ کے مطابق 2025تک آدھی سے زائد دنیا پانی کی قلت اور کسی حد تک خشک سالی کا شکار ہوجائے گی۔ ایسی ہی رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کلائمیٹ کنٹرول کے عالمی سطح پر انتظامات نہ کیے گئے تو 2045 تک دنیا پانی کی کمی کے باعث قحط کی لپیٹ میں آ جائے گی۔پاکستان کو فوری طور پر اقدامات کا آغاز کرنا ہوگاگرمی کی شدت اور بن موسم بارشوں نے پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے اور اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھ سکتی ہے اور اگر یہ بڑھی تو پاکستان جو پہلے ہی غذائی تحفظ کے لحاظ سے شدید خطرے کا شکار ہے، مزید مسائل میں گھر جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے برسوں میں اہم غذائی اور نقد آور فصلوں جیسے گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی کر چکا ہے۔