بیجنگ :
چینی لہسن کے حوالے سے یہ کبھی بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ یہ امریکہ کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ حال ہی میں امریکی کانگریس نے مالی سال 2025 کے لیے نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ منظور کیا، جس میں نہ صرف امریکی فوج کو چینی لیڈار ٹیکنالوجی کے استعمال اور چینی آن لائن تربیتی کورس کرنےوالی کمپنیوں کے ساتھ تعاون پر پابندی لگائی گئی ہے، بلکہ حیران کن امر یہ ہے کہ امریکی فوجی محکمہ کے لئے “تازہ یا منجمد چینی لہسن” کی فروخت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسی دوران امریکی سینیٹر رک سکاٹ نے حالیہ دنوں امریکی
محکمہ تجارت کے نام ایک خط میں دعویٰ کیا کہ “کمیونسٹ چائنا کا لہسن” امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
چینی لہسن بھی امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟ بقول اسکاٹ ، چینی لہسن سیوریج میں اگتا ہے اور پھر بلیچ کیا جاتا ہے اور کاشت کاری کے عمل میں چائلڈ لیبر کے استعمال کا امکان ہے۔ایسے سستے چینی لہسن سے امریکی مارکیٹ کو بھرنا، امریکی لہسن کے کاشتکاروں اور صارفین کے لئے بڑا جھٹکا ہے ، جس سے امریکی غذائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ سکاٹ کے منطق سے عاری بیانات نے ایک بار پھر امریکی سیاست دانوں کی گراوٹ سے بھری سوچ اور نچلی ذہنیت کے بارے میں لوگوں کی یادوں کو تازہ کیا ہے۔
اسکاٹ کا غیر منطقی گارلک فوبیا بی بی سی سے بھی برداشت نہیں ہوا اور اپنی رپورٹ میں کینیڈین سائنسدان کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ درحقیقت ایسے مضحکہ خیز دعووں کو 2017 کے اوائل میں ہی مسترد کر دیا گیا تھا۔ کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کے سائنس اور سوسائٹی کے دفتر نے کہا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چین لہسن اگانے کے لیے سیوریج کو کھاد کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دفتر نے اس بات پر بھی زور دیاکہ “انسانی فضلہ جانوروں کے فضلے کی طرح کھاد ہے۔ اگرچہ یہ سننے میں شائد اچھا نہیں لگتا ، لیکن یہ لوگوں کے تصور سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ “چین کا لہسن اعلیٰ معیار اور کم قیمت کا ہے، اور اس کی پرکشش ظاہری شکل مکمل طور پر چین کی کاشتکاری کی جدیدٹیکنالوجی اور انتظام کے طریقوں کا نتیجہ ہے. متعلقہ تربیتی کورس پورے چین میں آسانی سے دستیاب ہے اور خواہش مند افراد کو سکھانے کی مکمل ضمانت فراہم کی جاتی ہے. جہاں تک چائلڈ لیبر کا امکان ہے تو یہ محض قیاس آرائی اور سراسر بے بنیاد ہے۔
امریکہ کی جانب سے چینی لہسن کی درآمد مارکیٹ کے انتخاب کا نتیجہ ہے۔امریکہ میں لہسن کی پیداوار کامرکزی علاقہ ریاست کیلیفورنیا ہے ، جہاں مجموعی پیداوار پورے امریکہ کی مارکیٹ کی طلب کو پورا نہیں کر سکتی۔ چینی لہسن کی درآمد نہ صرف امریکی صارفین کی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ کھپت کی لاگت کو بھی کم کرتی ہے۔ کیا لہسن واقعی خطرہ ہے؟ اس طرح کی بحث مضحکہ خیز ہے، جو موجودہ تحفظ پسندی میں مبتلا امریکی سیاست دانوں کی بےچینی کو اجاگر کرتی ہے۔ امریکی صارفین کو لہسن درآمد کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں، یہ قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے کچھ امریکی سیاست دانوں نے “ہسٹیریائی”طرز عمل اپنایا، جس کے پیچھے طویل المدتی “بالادست پسند” ذہنیت ہے ۔
چینی لہسن کا عالمی اثر و رسوخ ہے، جو دنیا کی پیداوار کا 70فیصد سے زیادہ اور عالمی برآمدات کا 80فیصد سے زیادہ ہے. چائنا کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق، چین نے 2023 میں 2.2377 ملین ٹن لہسن برآمد کیا، جس کی مجموعی مالیت 2.961 بلین امریکی ڈالر ہے، اور یہ چین کی سبزیوں کی کل برآمدات کا 16 فیصد بنتا ہے. لیکن جنوب مشرقی ایشیا ، لہسن کی برآمدات کے لئے چین کی سب سے بڑی بیرون ملک مارکیٹ ہے، امریکہ کو لہسن کی برآمدات چین کی لہسن کی کل برآمدات کا صرف 12.5فیصد تھا. دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ جس چیز کو دبانا چاہتا ہے ،وہ دراصل چینی سبزیوں کی برآمدات میں مقبول ترین پیداوار ہے۔.
چین کی پھلتی پھولتی معیشت اور مقبول چینی مصنوعات کے تناظر میں امریکہ میں کچھ سیاست دان بے خوابی اور بے چینی کا شکار ہو چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں زیادہ سے زیادہ چینی مصنوعات کو امریکہ کی جانب سے “قومی سلامتی کے خطرات” کے طور پر لیبل کیا گیا ہے، ہواوے موبائل فونز سے لے کر موسمیاتی ائیرشپ تک، ڈرونز سے لے کر گینٹری کرینوں تک، ماسک سے برقی گاڑیوں تک، لیزر ریڈار سے سیٹلائٹ انٹینا تک، وغیرہ وغیرہ۔ اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ “قومی سلامتی” کے بہانے چینی کمپنیوں اور مصنوعات پر پابندیاں عائد کرتا رہا ہے، تاکہ عالمی صنعتی اور سپلائی چینز کو زبردستی توڑ دیا جائے، اور “ڈی کپلنگ ” کے ذریعے معمول کی عالمی تجارت کو کمزور کیا جا سکے۔
یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے کچھ سیاست دانوں کی نظر میں، لہسن یقینی طور پر چینی اجناس کی آخری شے نہیں ہے جو امریکہ کی نام نہاد “قومی سلامتی” کے لئے خطرہ ہے. جب تک “چین مخالف تصور میں ہسٹیریائی “طرز فکر تبدیل نہیں ہوگی”، تو چین کی کوئی بھی مصنوعات ، چاہے اس کا معیار کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ، چین کی معیشت اور طاقت کو فروغ دے سکتی ہے ، اسے امریکی قومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھا جاسکتا ہے۔.
افسوس کی بات یہ ہے کہ “چین کے خطرے” کی وکالت کرنا ” امریکی بالادستی کی بے چینی کا علاج نہیں ہے، بلکہ اس سے امریکی سیاست دانوں کا دنیا کے بارے میں تصور مزید مسخ ہوجائے گا اور وہ خود عوامی مذاق کے شکار بن جائیں گے۔معیشت قوانین کے مطابق چلتی ہے، اور مارکیٹ کے اپنے قوانین ہیں۔اگر امریکہ نے زبردستی اپنی مارکیٹ چین سے الگ کی، تو وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارے گا۔امید ہے کہ امریکی سیاست دانوں میں دانش مخالف سوچ کے بجائے زیادہ معقول طرز فکر اپنایا جائے گا۔