اسلام آباد (آئی پی ایس )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ جنوری میں ہم ایک بار پھر احتجاج کی پوزیشن میں ہوں گے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ ہم مزید آپ کو چار لوگوں کے کوائف دے سکتے ہیں، 12 لوگ کنفرم ہیں جن کی ہلاکت ہوچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی نئی ہدایات پر من و عن عمل کیا جائے گائے گا، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے علاوہ اسلام آباد پولیس کے چند ایس ایچ اوز اور دیگر افسران کے خلاف شواہد اکٹھے کرکے دفعہ 302 کا فوجداری استغاثہ دائر کریں گے، جتنے مقتولین ہوں گے ان کا علیحدہ استغاثہ انہی ملزمان کے خلاف دائر ہوگا جو ان کے قتل کے مجب بنے ہیں، اسی طرح زخمیوں کے حوالے سے بھی قانونی کارروائی ہوگی۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ ایف آئی آر حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور انہوں نے ان وقعات کی پہلے ہی ایف آئی آرز کردی ہیں، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایک وقعہ کا کوئی بھی ورژن ہو چاہے وہ غلط ہو یا درست ہو، اس کی ایف آئی آر ہو جائے تو اسی واقعے کی دوسری ایف آئی آر نہیں ہوسکتی، لہذا ہمارے پاس جو متبادل حل ہے وہ فوجداری استغاثہ دفعہ 200 کے تحت ہے۔ یہ ایک انتہائی مضبوط حل ہے، جس طرح ایف آئی آر پر ملزمان کی پراسیکیوشن ہوتی ہے اسی طرح پرائیوٹ استغاثے میں بھی ہوتی ہے، تو ہم عن قریب تمام چیزیں فائنل کرکے عدالت سے رجوع کریں گے۔
گولی چلانے کا الزام آپ حکومت کو دیتے ہیں یا فوج پر ذمہ داری ڈالتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں شیر افضل مروت نے کہا کہ خود میاں نواز شریف صاحب نے ذمہ داری اسٹبلشمنٹ پر ڈالی اور انہوں نے کہا کہ ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ فوج نے اس کار خیر میں ہمارا ہاتھ بٹایا، اور یہ بیان ابھی تک واپس نہیں لیا گیا ہے، لہذا یہ جو آپریشن تھا اور اس میں جس انداز میں پروفیشنل لوگ لائے گئے اور اسنائپر رائفل سے فائر چلائے گئے، یہ صڑف پولیس کی حد تک محدود نہیں تھا، لازما یہ علی الاعلان کہہ چکے تھے، باقاعدہ تحریری طور پر انہوں نے آرمی کو طلب کیا، اس کے بعد وزیر داخلہ اور اطلاعاتے کے بیان ہیں کہ یہ اگر لاٹھی کی زبان نہ سمجھیں تو پھر گولی کا استعمال ہوگا، یہ وقعے سے پہلے ان کے بیانات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خان صاحب نے اپنے بیان میں یہ ذمہ داری محدود کردی ہے اور وزیراعظم، وزیر داخلہ اور پولیس افسران تک رکھی ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ہدایات کے تحت ہی دعویداری ہو۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران بشری بی بی کے کنٹینر پر آگ لگی نہیں لگائی گئی، ان کی گاڑی پر لیپیڈ پینٹ پھینکا گیا، ٹائروں پر گولی چلائی گئی۔ علی امین گنڈاپور کی گاڑی کو 13 فائر لگے ہیں، ان کے تعاقب میں ایک بلٹ پروف گاڑی لگی تھی، دو جگہ پر ان کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، ایک جگہ پر ان کی گاڑی کو ٹکر ماری گئی جب یہ منال کے راستے خیبرپختونخوا میں داخل ہو رہے تھے، جس تکالیف سے یہ دونوں گزرے یہ ایک لمبی کہانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی مخالف قوتوں کی ایما پر دونوں میں اختلافات کا بیانیہ پھیلایا جارہا ہے۔شیر افضل مروت نے کہا کہ اگر حکومت مارے گئے کارکنان کا خون بہا ادا کرلیتی ہے اور ان کے ورثا سے معافی مانگ لیتی ہے تو بات چیت کی فضا بن سکتی ہے، ورنہ ان لوگوں کے ساتھ پی ٹی آئی کا بیٹھنا قابل قبول نہیں ہوگا۔ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور پر ہوری پارٹی کو اعتماد ہے، ان کی ذات کو متنازع بنانے سے پارٹی کا نقصان ہوگا۔شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ ابھی ہم فوکس کر رہے ہیں ان کیسز پر جو ہم سب کے خلاف درج ہوئے ہیں، جنوری میں ہمیں یقین ہے کہ ہم آفٹر شاکس سے ریکور کرچکے ہوں گے اور دوبارہ احتجاج کی پوزیشن میں ہوں گے۔
شیر افضل مروت نے جنوری میں ایک بار پھر احتجاج کا اشارہ دیدیا
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔