Friday, September 20, 2024
ہومکالم وبلاگزقومی ترانوں کے احترام کا معاملہ: سفارتی پروٹوکول اور اس کے عالمی اثرات

قومی ترانوں کے احترام کا معاملہ: سفارتی پروٹوکول اور اس کے عالمی اثرات

تحریر: محمد محسن اقبال

بین الاقوامی تعلقات میں، سفارتکار اپنے وطن کے سرکاری نمائندے ہوتے ہیں اور دوسرے ممالک میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انہیں ایک مخصوص ضابطہ کار پر عمل کرنا ہوتا ہے جسے سفارتی پروٹوکول کہا جاتا ہے، تاکہ ان کے فرائض کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے اور میزبان ملک کی روایات اور قوانین کا احترام کیا جا سکے۔ ان ضابطوں میں ایک اہم پہلو قومی علامتوں، خاص طور پر قومی ترانے کا احترام ہے۔ سفارتکاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سرکاری تقریبات میں میزبان ملک کے ترانے کے دوران احترام کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ محض ایک اخلاقی رویہ نہیں بلکہ سفارتی پروٹوکول اور بین الاقوامی قانون کے تحت ایک لازمی فریضہ ہے۔
1961 کے ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات، سفارتکاروں کے طرز عمل کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ کنونشن سفارتکاروں کو میزبان ملک کے دائرہ اختیار سے کچھ حد تک استثنیٰ فراہم کرتا ہے، لیکن یہ انہیں میزبان ملک کے سماجی رسم و رواج اور پروٹوکولز کی پابندی سے مستثنیٰ نہیں کرتا۔ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41 کے مطابق، سفارتکاروں پر لازم ہے کہ وہ میزبان ریاست کے قوانین اور ضابطوں کا احترام کریں، جس میں رسمی پروٹوکول بھی شامل ہیں۔ حالانکہ کنونشن میں قومی ترانوں کا براہ راست ذکر نہیں کیا گیا، لیکن توقع واضح ہے کہ سفارتکاروں کو میزبان ملک کی علامتوں اور اقدار کا احترام کرنا چاہیے۔
سفارتکاروں کو عام طور پر وسیع تر مراعات اور استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، جیسے مقامی قوانین سے چھوٹ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سرکاری تقریبات میں غیر مناسب رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔ کسی قومی ترانے کی بے حرمتی سفارتی استثنیٰ کی وجہ سے قانونی سزا کا باعث نہ بھی بنے تو اس کے اور بھی نتائج ہو سکتے ہیں۔ میزبان ملک کے ترانے کے احترام میں کوتاہی کرنے والے سفارتکار کو سفارتی سرزنش، رسمی شکایات یا معافی مانگنے کی درخواستوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بعض اوقات، اس طرح کا رویہ دو ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
تاریخی طور پر، سفارتکاروں کی جانب سے ان ضابطوں کی خلاف ورزی کے واقعات کم ہی ملتے ہیں، کیونکہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہوتا ہے۔ تاہم، کچھ مواقع پر سفارتکاروں کو ان معیارات پر پورا نہ اترنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2002 میں ڈنمارک میں امریکی سفیر سٹیورٹ برنسٹین نے ایک تقریب میں ڈنمارک کے قومی ترانے کے دوران کھڑے نہ ہونے پر ایک سفارتی تنازع کو جنم دیا۔ بعد میں برنسٹین نے وضاحت کی کہ کھڑے نہ ہونے کا سبب مقامی پروٹوکول کی غلط فہمی تھی، لیکن اس واقعے نے ڈنمارک کے میڈیا میں کافی توجہ حاصل کی۔ امریکی سفارت خانے نے فوری طور پر معافی مانگی اور کہا کہ اس کا مقصد بے ادبی نہیں تھا۔
ایک اور نمایاں واقعہ 2018 کے فیفا ورلڈ کپ کے دوران پیش آیا جب برازیل میں سربیا کے سفیر ویلجکو لازک نے ایک فٹبال میچ کے دوران برازیل کے قومی ترانے کے دوران کھڑے ہونے سے گریز کیا۔ اس واقعے پر برازیل میں کافی شور مچا، جس کے نتیجے میں سفارتی سطح پر بات چیت اور سربیائی سفارتخانے کی طرف سے معذرت پیش کی گئی۔
2020 میں، کینیڈا میں ایک چینی سفارتکار کانگ پئی وو نے ایک تقریب میں کینیڈا کے قومی ترانے کے دوران کھڑے ہونے سے انکار کر دیا۔ یہ واقعہ دونوں ممالک کے پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید تنازع کا باعث بنا۔
2019 میں جرمنی میں ایک ترک قونصل نے ایک سرکاری تقریب میں جرمن قومی ترانے کے دوران بیٹھے رہنے کا واقعہ بھی خاصا نمایاں رہا۔ یہ واقعہ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں موجود کشیدگی کے دوران پیش آیا، جس میں انسانی حقوق اور سیاسی پناہ کے معاملات شامل تھے۔
2016 میں ایک سرکاری تقریب کے دوران روسی سفارتکاروں نے ایسٹونیا کے قومی دن پر منعقدہ تقریب میں ایسٹونیا کے ترانے کے دوران کھڑے ہونے سے انکار کیا۔ اس اقدام کو ایک سیاسی بیان سمجھا گیا اور اس نے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید متاثر کیا۔
2018 میں کولمبیا میں ایک وینزویلا کے سفارتکار کی جانب سے کولمبیا کے قومی ترانے کے دوران بیٹھے رہنے کے واقعے نے اس نازک معاملے کو مزید نمایاں کیا۔
ستمبر 2024 کو پشاور میں منعقدہ قومی رحمت اللعالمین کانفرنس کے دوران افغان قونصل جنرل محب اللہ شکیل اور ان کے معاون نے پاکستانی قومی ترانے کے دوران بیٹھے رہنے کا واقعہ پیش آیا۔ اس اقدام کو سفارتی روایات کی خلاف ورزی سمجھا گیا اور اس پر سیاسی اور میڈیا حلقوں میں تنقید کی گئی۔ اس واقعے نے پاک افغان تعلقات میں موجود پیچیدگیوں کو مزید اجاگر کیا۔
مذکورہ واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سفارتی پروٹوکولز کی خلاف ورزی، چاہے غیر ارادی ہی کیوں نہ ہو، سفارتی نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ قومی علامتوں، جیسے کہ ترانہ، کی بے حرمتی سے سرکاری شکایات، عوامی تنقید، اور سفارتی احتجاج پیدا ہو سکتے ہیں۔اگرچہ بین الاقوامی قوانین میں قومی ترانوں کے دوران مخصوص رویے کی لازمی شرائط نہیں ہیں، سفارتی روایت، مقامی قوانین اور ویانا کنونشن کے وسیع اصول اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ میزبان ملک کے ترانے کا احترام سفارتی پروٹوکول کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان اصولوں کی خلاف ورزی سفارتی احتجاج، تعلقات میں دراڑ، یا بعض اوقات سفارت کار کی واپسی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ سفارت کاروں کو ان پروٹوکولز کی مکمل پیروی کرنی چاہیے تاکہ بین الاقوامی تعلقات کی عزت و وقار برقرار رہ سکے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔