اسلام آباد:وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ دونوں ایوانوں سےمنظوری کے بعد ترمیمی بل الیکشن ایکٹ بن گیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ پر بات ہونی چاہیے کہ یہ قانون کس نظریے سے بنایا گیا ہے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما بلال کیانی نے قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا، سینیٹ میں طلال چوہدری نے بل پیش کیا اور وہاں وہ کثرت رائے سے منظور ہوا اور قانون بن گیا۔
عطاتارڑ کا کہنا تھا کہ فلور کراسنگ کے حوالے سے آئین واضح ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، فرض کریں کے کوئی آزاد امیدوار مسلم لیگ (ن) کا ایفیڈیوٹ جمع کرواتا ہے تو رولز یہ کہتے ہیں کہ 3 دن کے اندر پارٹی وابستگی ظاہر کرنی ہوتی ہے، حلف نامہ کسی دوسری پارٹی کا اگر دے دیا تو کیا وہ حلف نامہ ختم ہوسکتا ہے؟ کیا اسے ختم کرنے کے بعد دوسری پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں؟ کیا کسی کی حلف اٹھائے ہوئے ممبر کی رکنیت کو ختم کر کے نئے ممبران کو فلور کراسنگ کروا کر نئی پارٹی جوائن کروائی جاسکتی ہے؟ یہ بہت پیچیدہ صورتحال ہے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ ایک رول پہلے ہی موجود تھا کہ 3 دن کے اندر آزاد امیدوار نے پارٹی میں شامل ہونا ہے، اس بل کے ذریعے اس رول کو قانون میں بدل دیا گیا ہے، یہ پریکٹس اور رول دونوں موجود ہیں، متناسب نمائندگی کا جو تع؛ق ہے تو سپریم کورٹ کے 2 ججز نے انتہائی اہم سوالات اٹھائے ہیں، انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکلز 51، 62، 63 اور 106 کو معطل کرنا پڑے گا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے لیے اور آئین کے کچھ آرٹیکلز کے اسکوپ سے باہر بھی جانا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ 15 دن گزر گئے مگر اکثریت کی طرف سے ججمنٹ کا تفصیلی فیصلہ جار کیوں نہیں کیا گیا؟ جب آئین واضح کہتا ہے کہ کسی بھی جماعت کو مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے فارمولے کے تحت دی جائیں گی تو اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ جماعتیں جو پارلیمان میں موجود ہیں، نا سنی اتحاد کے چیئرمین نے سنی اتحاد کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا نہ ان کی جماعت کا پارلیمان میں کوئی وجود تھا، اگر آزاد امیدوار ایم ڈبلیو ایم جوائن کرتے تو شاید سیٹیں مل جاتیں، اب پارٹی کے الیکشن نہ کرائیں اور کہیں کہ سیٹیں مل جائیں، ایک ایسی پارٹی جوائن کریں جس کا وجود نہیں پارلیمنٹ میں اور پھر کہیں متناسب نمائندگی کے تھت ہمیں سیٹیں دی جائیں تو یہ کیسا انصاف ہے؟
انہوں نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے لیے ضروری ہے کہ ہر سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کے امیدواروں کی فہرستیں آویزاں کریں شیدول کے مطابق، اس شیڈول کو بھی سپریم کورٹ کے فیصلے نے ختم نہیں کیا، اگر ہم نے 15 خواتین اور 10 اقلیتوں کی لسٹ دی ہے وہ انتخاب سے پہلے لگنی ہوتی ہے شیڈول کے مطابق تاکہ ووٹر کو مطلع کرسکیں کہ انہیں ہم نے چنا ہے اور یہ ووٹر کے اوپر ہے کہ وہ اس چوائس کے مطابق ہمیں ووٹ دیتا ہے یا نہیں دیتا الیکشن میں۔
عطا تارڑ نے بتایا کہ قانونی ماہرین کے مطابق وقت کے دھارے کو پیچھے موڑا گیا، بن مانگے ریلیف دیا گیا، اور ایسے فریق کو ریلیف دیا گیا جس نے مانگا ہی نہیں تھا، پارلیمان ایک بالا دست ادارہ ہے، ان کو قانون سازی کا اختیار ہے اور اس نے ایک رول کو قانون بنایا ہے، اس کو تقویت بخشی، جکو قانونی سقم پیدا ہوا ہے اس کا حل ضروری ہے، قانونی معاملات میں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔
بعدازاں بنگلہ دیش کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عوام اور حکومت بنگلہ دیشی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم اس کو سراہتے ہیں کہ بنلہدیشی لوگوں نے مزاحمت، عزم اور حوصلہ دکھایا ہے، ہمارے ملک میں عمران خان نے شیخ مجیب کو ایک ہیرو کے طور پر دکھایا تھا، اپنا موازنہ شیخ مجیب سے کیا اور کہا کہ میرے ساتھ وہ ہورہا ہے جو اس کے ساتھ ہوا تھا، جیل سے بار بار شیخ مجیب کی بات کی۔
انہوں نے بتایا جو اگر یو ٹرن نہ لیں تو وہ بانی پی ٹی آئی کہلا ہی نہیں سکتا، پر بات پر یو ٹرن، ان کا کوئی دین ایمان بھی ہے یا نہیں، اب جب شیخ مجیب کے مجسمے گرائے گئے تو کہتے ہیں کہ دیکھیں عوام نے کیا کیا، کل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ شہباز شریف کچھ سیکھیں حسینہ واجد سے تو دیکھیں آپ کی جماعت نے بیانیہ بنایا شیخ مجیب کا، کیا آپ نے عمران خان کا موازنہ عمران خان سے نہیں کیا گیا؟
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ حسینی واجد اور عمران خان کی حکومت میں کچھ چیزیں مشترکہ تھیں، ادھر بھی وہ بیران مدد مانگ رہے تھے یہ بھی مانگتے رہے، انہوں نے بھی ملک میں 190 ملین اور توشہ خانہ جیسی کرپشن کی، یہ شیخ مجیب کو ہیرو مانتے تھے تو ایک مجسمہ گرنے سے انہوں نے اپنا ایمان بدل لیا
دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد ترمیمی بل الیکشن ایکٹ بن گیا ،عطا تارڑ
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔