اسلام آباد (سب نیوز )وزرات انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے متنازع انٹرنیٹ فائر وال کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔ایک رکن پارلیمان اور سابق نگران وزیر اعظم کی طرف سے اس کے نفاذ کی تصدیق کے باوجود حکومتی اہلکار ایک متنازع فائر وال کے بارے میں معلومات دینے سے انکاری ہیں، جس کو وہ نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ملک میں آنے اور جانے والی تمام آن لائن ٹریفک کی مانیٹرنگ کرسکیں۔
26 جنوری کو ایک پرائیویٹ نیوز چینل 92 نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس وقت کے عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے انکشاف کیا کہ ریاستی حکام نے پاکستان میں سوشل میڈیا کو ‘ریگولیٹ’ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔نگران وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ ‘ہماری نیشنل فائر وال جو ہے وہ بہت جلد سامنے آجائیگی۔’اسی طرح کا بیان حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن (PML-N) کے سینیٹر افنان اللہ خان نے 3 مئی کو DAWN ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔
جب سینیٹر افنان اللہ سے پاکستان میں گزشتہ تین ماہ سے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم X، جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر عائد سرکاری پابندی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس بندش سے اتفاق نہیں کیا اور پھر مزیدکہا کہ ان کی معلومات کے مطابق حکومت ‘سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کے لیے ایک فائر وال’ نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
نجی چینل کی فیکٹ چیک رپورٹ کے مطابق نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹر، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) اور وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو اس پر تبصرے کے لیے بار بار درخواستیں بھیجیں۔وزارت کے ترجمان جمیل احمد نے دعوی کیا کہ فائر وال کا نفاذ ‘پی ٹی اے کے دائرہ کار’ میں آتا ہے، جب کہ وزیر مملکت شزہ فاطمہ خواجہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تاہم پی ٹی اے کے ترجمان کے مطابق ‘وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا پروجیکٹ’ ہے اور صرف وہی فائر وال سے متعلق سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ فائر وال سسٹم آن لائن سنسرشپ کا ایک اور ٹول ہے۔ڈیجیٹل حقوق کے کارکن اسامہ خلجی نے وضاحت کی کہ ان کی معلومات کے مطابق حکومت جس ‘نیشنل فائر وال’ کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، وہ شاید چین سے خریدا گیا ہے