اسلام آباد (ارمان یوسف )الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترامیم کے نتیجے میں پریزائڈنگ افسران نتیجے کو فوری طور پر الیکشن کمیشن کو بھیجنے کے پابند ہونگے،حتمی نتیجے کی تصویر بنا کر ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کے ساتھ شیئر کی جائیں گی،پریزائڈنگ افسر انتخاب کا نتیجہ پولنگ کی رات دو بجے تک دینے کا پابند ہوں گے، جبکہ نتائج جمع کروانے کی ڈیڈ لائن اگلی صبح 10 بجے تک رکھی گئی ہے،نئے قانون کے تحت الیکشن ٹربیونل میں ریٹائرڈ ججو ں کو شامل نہیں کیا جائے گا،سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی نشست کے لیے تعلیمی قابلیت کے علاوہ 20 سالہ تجربے کو بھی ضروری بنایا گیا ہے،حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب پر ہی کی جائیں گی اور ایسا انتخابی شیڈول کے اعلان ہونے سے چار ماہ قبل مکمل ہونا ہو گا جبکہ حلقوں میں ووٹرز کی تعداد میں فرق 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا،انتخابی مہم پر قومی اسمبلی نشست کے لیے 40 لاکھ سے ایک کروڑ تک خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے،صوبائی نشست کے لیے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ امیدوار 10 روز میں حلقے پولنگ عملے کی تعیناتی چیلنج کر سکے گا، سکیورٹی اہلکار پولنگ سٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے اور ہنگامی صورت حال میں پریزائڈنگ افسر کی اجازت سے اندر آ سکیں گے،خواجہ سرائوں کو انتخابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت حاصل ہو گی،مقررہ وقت میں انٹرا پارٹی انتخابات منعقد نہ کرنے پر پارٹی کو شوکاز نوٹس کا اجرا اور جرمانہ بھی عائد ہو گا۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017میں پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کی جانے والی ترامیم سے اہم تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں ،بل کے تحت اثاثہ کی تعریف میں امیدوار اور ممبر کے اثاثہ جات کے ساتھ ساتھ ان کے شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کے اثاثے بھی شامل کر دئیے گئے ہیں،ٹیکنو کریٹ کے لیے مطلوبہ 20 سالہ تجربہ اب ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ 16 سالہ تعلیم پر مبنی ڈگری کے بعد کے عرصہ کا ہونا ضروری ہے،الیکشن کمیشن کی طرف سے عوام الناس بالخصوص خواتین کے لیے ووٹوں کے اندراج اور انتخاب میں شرکت وغیرہ کے حوالہ سے عوامی آگاہی کے پروگرام اور اشتہاری مہم چلانے کی شق میں خواتین کے ساتھ ساتھ غیر مسلم، افراد باہم معذوری اور خواجہ سرا بھی شامل کر دیے گئے ہیں، پریزائڈنگ افسر کے لیے لازم تھا کہ وہ ووٹوں کی گنتی کے فورا بعد گنتی کے نتیجہ کے فارم(فارم-45)کی تصویر لیکر سروس دستیاب ہوتے ہی اسے برقی ذرائع سے کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو بھیجے گا۔ اب برقی ذرائع کے ساتھ متبادل ٹیکنالوجیز بھی شامل کر دی گئی ہیں جبکہ سروس کے دستیاب نہ ہونے اور برقی یا دوسری ٹیکنالوجیز کے ذریعہ نتائج کا بھجوانا ممکن نہ ہونے کی صورت میں پریزائڈنگ افسر کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر خود ریٹرننگ افسر کو نتائج پہنچائے گا،اگر پولنگ کے بعد آنے والی رات کو 2 بجے تک ریٹرننگ افسر کے پاس تمام پولنگ سٹیشنوں کے نتائج مکمل نہ ہوں تو وہ اس وقت تک موصول نتائج کی بنیاد پر مرتب کردہ عبوری نتائج اور تحریری طور پر تاخیر کی وجوہات اور ان پولنگ سٹیشنوں کی فہرست، جہاں سے نتائج موصول نہیں ہوئے ،کمیشن کو برقی طور پر بھجوائے گا جبکہ عبوری نتائج مکمل ہوتے ہی کمیشن کو بھجوائے گا،ریٹرننگ افسر عبوری نتائج ہر صورت میں اگلی صبح 10 بجے تک کمیشن کو برقی طور پر بھجوانے کا پابند ہو گا
الیکشن کمیشن موصول شدہ نتائج بشمول ڈالے گئے ووٹوں کی علحیدہ علحیدہ صنفی تفصیل کو جس قدر جلد ممکن ہو اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے گا،الیکشن کمیشن کے ماتحت حکام کے کسی فیصلہ ، ایکشن یا ہدایت سے متاثرہ کسی شخص یا کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی شکایت کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی مدت 15 دن سے کم کر کے 7 دن کر دی گئی ہے جبکہ کمیشن پولنگ ڈے سے قبل موصول شدہ تمام شکایات کو پولنگ ڈے سے قبل ہی نمٹانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا،حلقہ بندیوں کے دوران ایک اسمبلی یا مقامی حکومت کے حلقوں میں یکساں آبادی کو ممکن بنانے کے لیے غیر معمولی حالات میں موجودہ ضلعی حدود کی سختی سے پابندی ضروری نہیں ہو گی،الیکشن کمیشن کو انتخابی فرائض کی انجام دہی پر مامور کسی بھی سرکاری ملازم کے خلاف انتخابی امور کی انجام دہی میں غلط کاری پر اس کے خلاف قابل اطلاق انضباطی قوانین کے تحت انضباطی کاروائی کرنے اور سزاد دینے کا اختیار تھا اب الیکشن کمیشن کو ایسے سرکاری ملازمین کے خلاف انضباطی کاروائی کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 188 اور 184 کے تحت فوجداری کاروائی کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے،ریٹرننگ افسر کیلئے لازم تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن پروگرام کے اعلان کے بعد تین دن کے اندر اندر کمیشن کے دئیے گئے الیکشن پروگرام کا عوامی نوٹس شائع کر ے اور متعلقہ حلقہ کی نمایاں جگہوں پر آویزاں کرے اب ایسا نوٹس جاری کرنے کیلئے تین دن کی پابندی ختم کر دی گئی ہے،ریٹرننگ افسر کی جانب سے پولنگ سٹیشنوں کی فہرست کی اشاعت کے 21دن کے اندر اندر کسی ووٹر کو ہی یہ اختیار تھا کہ وہ اس پولنگ سٹیشن جہاں پر اس کا ووٹ درج ہے سے متعلق کوئی اعتراض یا تجویز ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے پاس داخل کر سکتا ہے اب اضافی طور پر متعلقہ حلقہ کے امیدواروں کو بھی یہ حق دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے حلقہ کے ایک یا زائد پولنگ سٹیشنوں کی بابت اعتراضات یا تجاویز مقررہ مدت کے اندر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے پاس داخل کر سکتے ہیں
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اعتراضات کی سماعت اور فیصلوں کے بعد پولنگ ڈے سے کم از کم03 روز پہلے پولنگ سٹیشنوں کی حتمی فہرست سرکاری گزٹ اور کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کرنے کا پابند ہے تاہم اسے انتہائی غیرمعمولی حالات میں کمیشن کی پیشگی منظوری سے تمام امیدواروں کو نوٹس دینے کے بعد کسی بھی وقت پولنگ سٹیشنوں کی شائع شدہ حتمی فہرست میں تبدیلی کا اختیار تھا اب ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر ایسی کوئی بھی تبدیلی پولنگ سے 5 روز قبل تک کر سکتا ہے جبکہ اس کے لیے یہ بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایسی کسی تبدیلی کی نقل فوری طور پر تمام امیدواروں کو مہیا کرے،کسی ایسی عمارت، جو کسی امیدوار کی ملکیت یا براہ راست یا بلواسطہ طور پر اس کے کنٹرول میں ہو میں پولنگ سٹیشن قائم نہیں کیا جا سکتا اب اس پابندی میں امیدوار کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعت کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے،قبل ازیں امیدواروں کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ انتخابی اخراجات کے لیے اپنا نیاخصوصی بینک اکانٹ کھلوائیں تاہم اب امیدواروں کو اپنا کوئی موجودہ اکاونٹ بھی اس مقصد کے لیے مختص کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم اگر امیدوار اپنا کوئی موجودہ بنک اکانٹ انتخابی اخراجات کے لیے مختص کرنا چاہے تو اسے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ ایسے اکاونٹ کی بینک سٹیٹمنٹ بھی لف کرنا ہو گی،انتخابی فیس اب ہر حال میں ناقابل واپسی ہو گی،ریٹرننگ افسر امیدواروں اور ان کے انتخابی نشانات کی حتمی فہرست کمیشن کو بھجوائے گا جو کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کی جائے گی
اب ہر امیدوار کو اپنے حلقہ کے ایک کی بجائے تین ووٹروں کو اپنا الیکشن ایجنٹ مقرر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم نتائج کی یکجائیگی کے دوران امیدوار کی طرف سے مجاز صرف ایک الیکشن ایجنٹ موجود رہ سکے گا،پریزائڈنگ افسر کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ پولنگ کے دن پولنگ سٹیشن کے باہر ہر پولنگ بوتھ پر ڈالے جانے والے ووٹوں کے سیریل نمبروں کی فہرست آویزاں کرے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار پولنگ سٹیشن کے باہر اپنے فرائض سرانجام دیں گے تاہم کسی ہنگامی صورتحال میں امن و امان بحال کرنے اور پرامن پولنگ کو یقینی بنانے کیلئے پریزائڈنگ افسر انہیں پولنگ سٹیشن کے اندر طلب کر سکے گا،کسی بھی ووٹر کو چیلنج کرنے کا اختیار امیدوار یا اس کے پولنگ ایجنٹ کو حاصل تھا اب یہ اختیار الیکشن ایجنٹ کو بھی دے دیا گیا ہے،پولنگ سٹیشن پر گنتی کا عمل مکمل ہونے کے فورا بعد پریزائڈنگ افسر بلاتاخیر گنتی کا نتیجہ(فارم-45) اور بیلٹ پیپروں کی گنتی کے حساب کے فارم(فارم-46) ریٹرننگ افسر اور کمیشن کی طرف سے مجاز کسی دوسرے افسر کو دیگر ضروری ریکارڈ کے ہمراہ خود پہنچائے گا جبکہ ریٹرننگ افسرایسے تمام پریزائڈنگ افسران جو اس کے خیال میں ناقابل معافی تاخیر کے مرتکب ہوئے ہوں، کی تفصیلات کمیشن کو ارسال کرے گا تاکہ ان کے خلاف انضباطی کاروائی عمل میں لائی جا سکے جبکہ اس دوران ان کو انتخابی فرائض کی ادائیگی کے عوض ملنے والے معاوضہ کی ادائیگی بھی روک دی جائے گی۔ریٹرننگ افسر پوسٹل بیلٹ پیپر کے اجرا کے لیے موصول ہونے والی تمام درخواستوں کی وصولی کی تاریخ درج کرے گا اور مقررہ تاریخ کے بعد وصول ہونے والی درخواستوں پر غور نہیں کیا جائے گا
جبکہ حق داردرخواست کندگان کو بیلٹ پیپر جاری کرنے کے بعد ریٹرننگ افسر ایسے بیلٹ پیپروں کی کاونٹرفائلز کو علحیدہ لفافہ / لفافوں میں پیک کر کے اپنے دستخط کرے گا اور مہر لگائے گا۔ اب صرف وہ ہی پوسٹل بیلٹ پیپر گنتی میں شامل کیے جائیں گے جو پولنگ کے روز سے قبل ریٹرننگ افسر کو وصول ہوں گے،ریٹرننگ افسر نتائج کو یکجا کرنے کے عمل کے آغاز سے قبل کسی امیدوار یا اس کے الیکشن ایجنٹ کی طرف سے ایک یا زائد پولنگ سٹیشنوں کے بیلٹ پیپروں کی دوبارہ گنتی کی درخواست پر دوبارہ گنتی کرے گا اگر جیتنے والے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کا فرق حلقہ میں ڈالے گئے کل ووٹوں کے پانچ فیصد یا قومی اسمبلی کی صورت میں 8 ہزار اور صوبائی اسمبلی کی صورت میں 4 ہزار، دونوں صورتوں میں سے جو بھی کم ہو، سے کم ہو یا پریزائڈنگ افسر کی جانب سے مسترد کیے گئے ووٹوں کی تعداد جیت کے فرق کے برابر یا زائد ہو۔تاہم ریٹرننگ افسر دوبارہ گنتی صرف ایک بار کرے گا۔نتائج کی یکجائیگی کا عمل مکمل ہونے سے قبل الیکشن کمیشن کو دوبارہ گنتی کے لیے ریٹرننگ افسر کو ہدایت جاری کرنے کے اختیار کو تمام امیدواروں کو نوٹس جاری کرنے سے مشروط کر دیا گیا ہے،دوبارہ گنتی کی صورت میں ریٹرننگ افسرکو نتائج کی یکجائیگی کا عمل قومی اسمبلی کی صورت میں 7 دن جبکہ صوبائی اسمبلی کی صورت میں 5 دن میں مکمل کرنے کا پابند کر دیا گیا ہے۔ ریٹرننگ افسر انتخابات کے نتائج کی یکجائیگی کا گوشوارہ (فارم-48)اور حتمی یکجا نتیجہ (فارم -49 )کی نقول موجود امیدواروں اور ان کے الیکشن ایجنٹس کے علاوہ مجاز مبصرین کو بھی مہیا کرے گا،اب ریٹرننگ افسر بیلٹ پیپروں کے حساب (فارم-46) کے پیکٹ کے ساتھ ساتھ گنتی کے نتیجہ (فارم-45) کے پیکٹ، نتائج کی یکجائیگی کا حتمی گوشوارہ(فارم-48) اور حتمی یکجا نتیجہ (فارم-49) بھی ٹیمپرایونڈنٹ بیگ میں سیل کرے گا۔کسی امیدوار، اس کی طرف سے کسی دیگر شخص یا سیاسی جماعت یا کسی سیاسی جماعت کی طرف سے خاص طور کسی امیدوار کے لیے کیے گئے وہ اخراجات انتخابی اخراجات میں شامل ہوں گے جو امیدوار کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جانے سے لے کر حتمی یکجا نتیجہ کے اجرا تک کے عرصہ کے دوران کیے جائیں۔
قومی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے انتخابی اخراجات کی حد 40 لاکھ روپے سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے 20لاکھ روپے سے بڑھا کر 40 لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔امیدواروں کے لیے لازم قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے لیکر انتخابی اخراجات کے گوشوارے جمع کروانے تک انتخابی اخراجات کے لیے کھلوائے گئے نئے بنک اکانٹ یا اس مقصد کے لیے مختص کیے گئے موجودہ بنک اکاونٹ سے انتخابی اخراجات کے علاوہ کوئی اور لین دین نہیں کریں گے جبکہ انتخابی اخراجات کا کوئی لین دین ایسے اکاونٹ کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے نہیں کیا جائے گا۔ کسی اسمبلی یا سینیٹ کے الیکشن کی صورت میں الیکشن ٹریبونل ہائی کورٹ کے صرف موجودہ جج پر مشتمل ہو گا۔ الیکشن پٹیشن کا فیصلہ 180 دن کے اندر ہو گاجبکہ اس مدت کے دوران اگر فریقین سماعت کے لیے تاریخیں مقرر کرنے پر متفق نہ ہو سکیں تو ٹریبونل پٹیشن کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرے گا اور کسی بھی پارٹی کو زیادہ سے زیادہ 7 دن کا التوا دیا جا سکے گا جس کے لیے ہر جانہ کی مقدار ایک لاکھ روپے کی گئی ہے اور اگر پٹیشن کا فیصلہ 180 دن کے اندر نہ ہو سکے تو کسی بھی پارٹی کو زیادہ سے زیادہ 3 دن کا التوا دیا جا سکے گا جس کے لیے خصوصی ہرجانہ کی مقدار دس سے پچاس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ اس طرح الیکشن ٹریبونل کے فیصلہ کے خلاف دائر کردہ اپیل کا فیصلہ بھی 180 دن کے اندر کیا جائے گا جب کہ 180 دن کے اندر اپیل کا فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا جاری کردہ کوئی حکم امتناعی، اگر ہو، خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اگر الیکشن ٹریبونل اس نتیجہ پر پہنچے کہ قانون اور ضوابط کی خلاف ورزی ایک یا زائد پریزائڈنگ افسران یا ریٹرننگ افسر کی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے جبکہ منتخب امیدوار کی اس میں ملی بھگت نہ ہے تو ٹریبونل کمیشن کو ایسے پریزائڈنگ افسران یا ریٹرننگ افسر کے خلاف قانون ہذا کے تحت اور انضباطی کاروائی اور فوجداری کاروائی کی ہدایت کرے گا جبکہ اس دوران انتخابی فرائض کی ادائیگی پر واجب الادا معاوضہ کی ادائیگی بھی نہیں کی جائے گی۔
بدعنوانی کے جرائم میں کسی امیدوار کے حق میں ووٹ دینے یا نہ دینے کے لیے بلانے یا راغب کرنے کی بنیادوں میں ایسے امیدوار کے مذہب، صوبہ، کمیونٹی، نسل، ذات، برادری فرقہ یا قبیلہ کے ساتھ ساتھ اس کی مخصوص جنس یا خواجہ سرا ہونا بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ناجائز دبا کی تعریف میں کسی خاتون کے ساتھ ساتھ خواجہ سرا کو امیدوار بننے یا ووٹ ڈالنے سے روکنا بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ انتخابی فرائض کی انجام دہی پر معمور اہلکاران کو انتخابی کاغذات میں ردوبدل کے جرم میں مہیا کی گئی سزا کو ایسے انتخابی اہلکاروں کو دفعہ 55 کے تحت انضباطی کاروائی کے نتیجہ میں ملنے والی سزا سے اضافی قرار دیا گیا ہے۔قانون ہذا کی دفعات 177،176،174 اور 179 کے تحت آنے والے جرائم کو قابل دست اندازی پولیس قرار دے دیا گیا ہے۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے ممبر شپ کے لیے خواتین کے ساتھ ساتھ افراد باہم معذوری اور خواجہ سرائوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے دستور میں دی گئی مدت کے اندر پارٹی انتخابات کروانے میں ناکام رہے تو کمیشن ایسی سیاسی جماعت کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرے گا اور اگر پھر بھی سیاسی جماعت پابندی کرنے میں ناکام رہے تو کمیشن ایسی سیاسی جماعت کو ایک سے دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کرے گا۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسے عطیہ دہندگان کی فہرست مہیا کرنا جنہوں نے انتخابی مہم کے اخراجات ایک لاکھ روپے سے زائد عطیہ دیا ہو لازم ہے تاہم اب ایسے عطیہ کی مقدار بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دی گئی ہے، جبکہ سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں کیے گئے انتخابی اخراجات کے ساتھ ساتھ ضمنی انتخابات اور سینٹ کے انتخابات میں کیے گئے انتخابی اخراجات کی تفصیلات کمیشن کو فراہم کرنا بھی لازم قرار دے دیا گیا ہے۔
نگران حکومتوں کو موجودہ دو طرفہ یا کثیر الفریقی معاہدوں یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی ایکٹ 2017، انٹر گورنمنٹ کمرشل ٹرانزیکشنز ایکٹ 2022 اور پرائیویٹائزیشن کمیشن آرڈینینس 2002 کے تحت پہلے سے جاری منصوبوں کے متعلق اقدامات اٹھانے اور فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔اعزازی بنیادوں پر نامزدگی یا کسی بھی قانونی ادارے یا کسی ایسے ادارے کے کسی بورڈ کا رکن ہونا جو حکومتی ملکیت یا کنٹرول میں ہو مجلس شوری، صوبائی اسمبلی یا مقامی حکومت کا عہدیدار بننے کے لیے نا اہلی کے زمرے میں نہیں آئے گا اور نہ ہی اسی حیثیت میں کسی بزنس بشمول میٹنگ فیس اور دیگر مراعات کے لیے معاوضہ کی ادائیگی امیدوار بننے کے لیے نا اہلی میں شمار ہو گی۔کمیشن کی طرف سے شائع کردہ کسی بھی ضابطہ اخلاق میں متعلقہ شعبہ/افراد کی مشاورت کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکے گی۔ پچیسویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں چونکہ وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ جات (FATA) خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں لہذاالیکشن ایکٹ 2017 میں جہاں جہاں FATA کا ذکر ہے اسے ختم کردیا گیا ہے۔