Friday, July 5, 2024
ہومکالم وبلاگزمہمان کالم۔۔۔یہ وہ پاکپتن تو نہیں

مہمان کالم۔۔۔یہ وہ پاکپتن تو نہیں

تحریر ۔ فیاض محمود
شہر فرید میں جگہ جگہ بکھری بچپن کی خوبصورت یادیں مجھے مقناطیس کی طرح کھینچ لیتی ہیں۔ شام ہوتے ہی قدم خود بخود چل پڑتے ہیں اور میں وہاں جا پہنچتا ہوں جہاں میرا بچپن گزرا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اسلام آباد سے پاکپتن جاتا ہوں تو شام دوستو کے نام ہوتی ہے اور وقت کھیتوں کھلیانوں میں گزرتا ہے ۔ اب تو زمانے کیساتھ موسم بھی بدل چکا ہے۔ موسم گرما میں سورج روٹھا روٹھا رہتا ہے یوں لگتا ہے جیسے کوئی غصے سے لال پیلا ہورہا ۔ وہ بھی کیا دن تھے جب جون جولائی کا تپتا سورج بھی ہمارے راستے میں رکاوٹ نہ بن پاتا تھا اور ہم دنیا کی فکروں سے آزاد کھیل کود میں مشغول رہتے تھے ۔ اب تو دن کے وقت باہر نکلنے کا سوچ کر بھی سورج سے خوف آتا ہے۔ باقی پاکستان کی طرح پاکپتن میں بھی سورج معمول سے زیادہ آگ برساتا ہے ۔ سمجھ سے باہر ہے ایسی کیا آفت آن پہنچی کہ سورج ابھی سے سوا نیزے پر آ ٹپکا ہے۔ یہاں تو ہرے بھرے کھیت، درختوں سے بھرپور سر سبز و شاداب پگڈنڈیاں سب کچھ ہے پھر بھی اتنی زیادہ گرمی ۔ دیکھا جائے تو بس آبادی میں ہی دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوئی ہے اور تانگوں کی جگہ رکشے لے چکے ہیں۔ یہ وہ سوالات تھے جن کا جواب ڈھونڈنے کی اپنی سی کوشش کر ہی رہا ہوں کہ دروازے پر دستک ہوئی تو باہر لنگوٹیا دوست راشد آیا ہے اور ویسے بھی سورج ڈھل چکا ہے تو ہم چہل قدمی کے لیے کھیتوں کی سیر کو نکل پڑے ہیں۔ ہم چلتے چلتے اپنے محلہ پیرکریاں سے باہر نکلے تو آنکھوں کو یقین ہی نہ آیا ۔ سرسبز و شاداب کھیتوں کی بجائے بے ہنگم اور بے ترتیب نئے گھروں نے منہ چڑانا شروع کردیا ۔

آج وہاں نہ تو چونگی ہے نہ ہی شیشم کا وہ درخت جس سے بڑی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں ۔ موسم گرما میں سایہ فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ تھی بلکہ ہماری ٹیم کا بہترین رکن بھی تھی ۔ اس گھنے درخت پر ایک طرف سے چڑھنا اور دوسری طرف سے لٹک کر نیچے اترنا ہمارا مقبول مشغلہ تھا اچھی بات یہ تھی کہ کوئی اور دستیاب ہوتا تھا یا نہیں یہ ہمہ وقت ہمیں خوش امدید کہنے کو تیار رہتی تھی ۔ چونگی کو ہمارے ہیڈ کوارٹر کا درجہ حاصل تھا ہم کہیں نہ ملتے وہاں ضرور مل جاتے تھے۔ آج میری آنکھیں چونگی کیساتھ جڑا وہ گرانڈ بھی ڈھونڈ رہی ہیں جہاں کبھی ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے اور شام ہوتے ہی وانجو کا میدان سج جاتا تھا ۔ مجھے تو وہ برزگ بھی دکھائی نہیں دے رہے جو باہر بیٹھے بن بلائے کوچ کا کردار نبھاتے تھے ۔ میرے کان تو چاچے عامے کے ٹیوب ویل سے بہنے والے پانی کا شور بھی سننے کو بیتاب ہیں جس کا میٹھا پانی کھیتوں کو سیراب کرنے کیساتھ ساتھ ہماری پیاس بھی بجھاتا تھا۔ آج ٹیوب ویل کہ جگہ بڑی سی دیوار لے چکی ہے میری نظریں پختہ دیوار سے ٹکرا کر واپس لوٹ آئیں البتہ چھوٹی سی مسجد کو اپنی جگہ قائم و دائم دیکھ کر بے حد خوشی محسوس ہوئی بس فرق اتنا ہے کہ وہ پختہ در و دیوار کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ماضی میں ایسا کھویے کہ خود کو جھٹکا اور منتشر خیالات کو دلاسا دہتے ہی آگے بڑھ گئے۔ تھوڑا آگے اس کچی سڑک پر چلتے جارہے ہیں جسے ہم کچی سڑکی کہتے تھے ۔ یہ وی سڑک تھی جسے کبھی بے شمار درختوں نے گھیرا ہوتا تھا جب وہ تیز ہوا میں جھومتے تو ایسے لگتا جیسے گیت خوشی کے گا رہے ہوں ۔ ہمارے ماتھے پر چمکتے پسینے کے موتی دیکھتے ہی دیکھتے ٹھنڈا ہوا کی نظر ہوجاتے تھے لیکن آج وہاں اداسی بال کھولے سو رہی ہے ۔ اب آگے کو بڑھتے قدم بھاری ہورہے ہیں اور دل بوجھل ہوتا جارہا ہے یوں لگ رہا ہے بچپن کی یادیں مجھے پکار رہی ہیں جیسے وہ چاہتی ہیں کہ یہیں سے واپس لوٹ جاں ۔ وہ جانتی ہیں جن کا میں متلاشی ہوں وہ سب کچھ کہیں دور ماضی میں کھو چکا ہے۔ ٹوٹیوں والے ٹیوب ویل کے کھنڈرات اپنی آپ بیتی سنانے کے لیے خود ہی کافی ہیں۔ وہیں دائیں جانب دور پھیکے کے کھو پر لگا پیپل کا پیڑ مجھے اپنی جانب بلانے لگا اور ہم ایسے لپکے جیسے بچپن کو دوست مل گیا ہو ۔ یہ وہی تو ہے شدید گرمی میں جس کا گھنا سایہ ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتا تھا ہم گھنٹوں خوش گپیوں میں گزار دیتے تھے اور تاش کے پتوں میں خوشیاں سمیٹتے رہتے اور اس کے بڑوں پتوں سے پیدا ہونے والی مسحور کن موسیقی سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔

جب قریب پہنچے تو یوں لگا جیسے کسی نے ہماری خوش فہمیوں کو زور کا تھپڑ رسید کیا ہو۔ خواہشات کا حسین محل پل بھر میں زمین بوس ہوگیا ۔ ہم تاش کے پتوں کی طرح بکھری یادوں کو سمیٹنے لگے کیونکہ پیپل تو موجود تھا لیکن اس سے آنے والی ہوا ٹھنڈی ہے اور نہ ہی اس میں تازگی بلکہ گرم ہوا کے تھپیڑے کاٹنے کو آرہے ہیں ۔ کہاں گئے بھینسوں کے ریوڑ جو دن بھر اس پیپل کی چھاں میں سستاتے تھے۔ نہ تو بان کی چار پائی پڑی ہے اور نہ اس پر وہ تکیہ جو دیکھنے میں میلا کچیلا ہوتا تھا مگر اس پر سر رکھتے ہی انسان محو خواب ہو جاتا تھا ۔ میں راشد سے مخاطب ہوا مجھے تو وہ پینگ بھی نظر نہیں آرہی جس پر چھوٹی لڑکیاں جھولا جھولا کرتی تھیں اور لوک گیتوں سے ماحول بنا دیتی تھیں ۔ یہاں سے بھی میری سوالیہ نظروں کو کوئی جواب نہ ملا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر چاہتے ہوئے بھی یہاں ٹھہر نہیں پارہے اور ہم بے ساختہ اس راجباہ کی طرف چلنا شروع کردیا جسے ہم رجوایا کہتے تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں گرمیوں میں ڈوبکیاں لگانا ہم نے خود پر فرض کررکھا تھا اس بات سے بے پرواہ کہ یہ ہر سال ایک جیتے جاگتے انسان کو کھاتا ہے ۔ راجباہ کے دونوں اطراف کناروں پر لگے درختوں پر چڑھ کر پانی میں کودنا بہادری کی علامت سمجھا جاتا تھا آج پانی گدلا ہوچکا ہے ۔ اب اس میں لڑکے ڈوبکیاں نہیں لگاتے بلکہ جگہ جگہ سیوریج کے پائپ کودتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ کناروں پر لگی گھاس اپنی موت آپ مر چکی ہے یہ وہی گھاس تھی جو صبح کہ سیر کو آنے والوں کا مسکن تھا اس نرم گھاس پر بیٹھ کر بہتے پانی کا شور سننا ہر کسی کو پسند تھا ۔ کوئی ایک دکھ ہو تو بتاں درختوں سے روٹھے ہوئے راجباہ کو دیکھ کر ایک بار پھر دل کرچی کرچی ہوگیا۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے راجباہ کو زبردستی مونڈھ کر گنجا کردیا ہو۔ نہ تو وہاں پیڑ ہیں نہ ہی پرندوں کے گھونسلے ۔ آج وہاں دھول مٹی اپنے قدم جما چکی ہے ۔ گرد مٹی اتنی زیادہ ہے کہ اس کے اندر پاں دھنس رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی صحرا میں آبھٹکے ہوں۔ کبھی اس کے اس پاس تین تین باغ ہوا کرتے تھے جامن ، امرود اور بیروں کے باغ کئی ایکڑ پر پھیلے تھے اور ہماری خوشیوں کا بہترین سامان تھے۔ آج وہاں بھی ہاسنگ سوسائٹیاں اپنے قدم جما چکی ہیں۔ اب ہمت جواب دے چکی ہے۔ آگے بڑھنا ناممکن ہورہا ہے۔ مغرب کی اذان سنائی دی تو مجھے واپس جانے کا بہانہ مل گیا۔ ویسے بھی مجھے مزید آگے جاکر کیا کرنا ہے گرمی کی شدت میں اضافہ کیوں ہوا مجھے میرے سوالوں کا جواب مل چکا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔