Thursday, April 25, 2024
ہومکالم وبلاگزتخت لاہور سے ضلع تلہ گنگ بنانے کی نوید ۔۔۔۔تحصیل لاوہ تاریخی آئینہ میں

تخت لاہور سے ضلع تلہ گنگ بنانے کی نوید ۔۔۔۔تحصیل لاوہ تاریخی آئینہ میں

تحریر:ڈاکٹر ایم کے ریحان

٭ضلع چکوال کا قیام: صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق(مرحوم) نے گورنمنٹ ڈگر ی کالج کے گرائونڈ میں منعقدہ جلسہ میں بروز سوموار10 دسمبر1984ئ(بمطابق 16 ربیع الاوّل (1405 تحصیل چکوال کو یکم جولائی 1985سے ضلع کو درجہ دینے کا اعلان کیا۔اس اعلان کے مطابق یکم جولائی 1985 کو وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی زیر صدارت ہائی وے ریسٹ ہائوس چکوال منعقدہ اجلاس میں گورنر غلام جیلانی نے ضلع چکوال کو باقاعدہ درجہ دینے کا اعلان کیا۔:ضلع چکوال پانچ تحصیلوں چکوال، کلر کہار، چوآسیدن شاہ، تلہ گنگ اور لاوہ اور68 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔
٭تلہ گنگ کی تاریخ:بین الصوبائی شاہراہ پر واقع تلہ گنگ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ساتھ ہی یہ تحصیل ضلع چکوال کی انتہائی اہم تحصیل شمار ہوتی ہے۔تلہ گنگ نام کے ساتھ دو الفاظ ”تلہ اور گنگ ”بھی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔” تلہ” کا مطلب ہے نچلے حصے والی زمین اور” گنگ” ہندوؤں کی ایک قوم کا نام ہے۔ قیام پاکستان سے قبل یہاں پر ”گنگ قوم آباد ”تھی اور یہ علاقہ نچلی سطح پر واقع تھا ۔اس لیے یہاں پر آباد گنگ قوم کے افراد کو تلہ گنگ کے باعث شناخت کیا جاتا تھا۔یعنی ”نچلی زمین کے آباد کار” ۔یہاں پر آباد لوگ ہند آریائی زبانوں کا لہجہ پوٹھوہاری جو براہ راست ویدک سنسکرت کا حصہ ہے۔” تنڑی مینڑی یا تینڈی مینڈی ”کے الفاظ ا ور”توں” کا لفظ ہندکو اور پوٹھوہاری سے قریب ترین لہجہ جسے پوٹھوہاری زبان بولتے ہیں۔ ٭دوسری روایت کے مطابق تلہ گنگ نام گوہر علی عرف گنگ” اعوان قبیلہ” سے تعلق رکھتا تھا۔ ماضی میںیہ علاقہ” اعوان محل” کے نام سے جانا،پہنچا نا جاتاتھا ۔”گوہر علی” بابا قطب شاہ کے بیٹے مزمل علی کلغان کے بیٹے غلام علی عرف عدی کا بیٹا تھا۔ جسکی اولاد آج بھی تلہ گنگ میں آباد ہے۔جو گنگ” اعوان ”کہلاتے ہیں۔ گنگ اعوان قبیلہ کی گوت(شناحت) ہے۔ یہ علاقہ سطح زمین سے نیچے ہونے سے اس علاقہ کو”تَلہ”جبکہ یہاں”گَنگ” قوم آباد تھی ۔اس لیے یہ علاقہ” تَلہ گَنگ” کا نام مشہور ہو گیا ۔ اب بھی تَلہ گَنگ میں مختلف قومیں” اعوان، سیّد اور بلوچ” کثیر تعداد میں آبادہیں۔تحصیل تلہ گنگ (1904ء تا 30 جون1985ئ)تقریباً 81 سال تک انتظامی طور پر ضلع اٹک کے اثر پذیررہا ۔ قبل ازیں یہ تحصیل ضلع جہلم کا حصہ تھی اور آج ضلع چکوال کا حصہ ہے۔ مگر ایک صدی سے زیادہ محیط تحصیل آج بھی تحصیل کی فہرست سے نہ نکل سکی۔ یہ تحصیل 23 یونین کونسلوںاور 140 دیہاتوں پر مشتمل ہے۔تحصیل تلہ گنگ بڑی شاہراہ موٹروے سے 30کلو میٹر جبکہ ضلع چکوال سے 45کلو میٹر دُور واقع ہے۔تحصیل تلہ گنگ 2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق تحصیل تلہ گنگ کی کل (شہری و دیہی)آبادی401,986 افراد پرمشتمل ہے اور گھروں کی تعداد 71,750 ہے، 3لاکھ37ہزار752 افراد دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ 60ہزار 691گھر ہیں اور تلہ گنگ شہر کی آبادی63ہزار 855ہے اور تلہ گنگ شہر کے گھروں کی تعداد11059ہے ۔
٭ ضلع تلہ گنگ کی نوید:٭نصف صدی سے زیادہ میری صحافتی زندگی بہت سے تلخ و شریں حوادثات و واقعات سے گواہ ہے ۔صوبہ پنجاب میں کئی نئے اضلاع ، نئی تحصیلیں معرض وجود میں آئیں۔مگرا افسو ناک پہلو یہ کہ انگریز دور سے تلہ گنگ آج تک تحصیل کے دوراہے پر کھڑا ہے۔مگر اب تحت لاہور کے متحرک وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہی، ایم این اے چوہدری سالک اور ایم بی اے حافظ عمار یاسرکی کوششوں سے اسے ضلع کا درجہ دینے کی نوید ٹھنڈے جھونکے آ رہے ہیں۔نہایت مصدقہ زرائع کے مطابق تحصیل تلہ گنگ کو ضلع بنانے کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر پنجاب بورڈ آف ریونیو نے متعلقہ احکام تما م کام مکمل کرلیا ہے۔عنقریب ضلع تلہ گنگ کا اعلان اور جشن کی تیاری متوقع ہیں۔جبکہ ضلعی عدالتوں کیلئے گورنمنٹ کالج کے نزدیک زمین مختص کی جا چکی ہے۔جبکہ مقامی نمائندوں”سردارن ٹمن اور تلہ گنگ صدا بہاروزیر کے28 سالہ اقتدار(1985 تا 2013 کی تفصیل اگلے آرٹیکل میں” ۔اب حلقہ کے عوام کی فرجاد(دانائی) کا تقاضا ہے۔ کہ وہ 2023کے الیکشن میں حق آشنائی اورسیاسی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے حقیقی نمائندوں کی حق تلفی نہ کریں۔بلکہ مفاد پرستوں کی زبانی”تراق پڑاق” کی ڈگڈی بجانے والے خرانٹوںکے چیرہ دستیوں سے بچیں۔کیونکہ” جہاندیدہ بسیار گوید دروغ” ترجمہ: فتنہ پرداز(چالاک) آدمی بہت جھوٹ بولتے ہیں۔بلکہ فارسی کی کہاوت کے مطابق عمل کریں”آزمودہ را آزمودن جہل است” ترجمہ:آزمائے ہوئے کو آزمانہ جہالت ہے۔اب انشا اللہ!عوام کی دُعائیں بر آور ثابت ہوئیں اوردیرنہ مطالبہ” پایہ بپایہ ”(رفتہ رفتہ) پایہ تکمیل کے منازل طے کر رہا ہے ۔مزیدمجوزہ ضلع تلہ گنگ” تحصیل تلہ گنگ ،تحصیل لاوہ کے علاوہ تحصیل پنڈی گھیب پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ مجوزہ ضلع تلہ گنگ کیلئے نئی مجوزہ تحصیل ”ٹمن یاملتان خورد بھی زیر غور ہے۔جنکی آبادی2017 ء کی مردم شماری مطابق تحصیل تلہ گنگ کے گائوں ٹمن آبادی 18956 اورگھروں کی تعداد 3218 ہے۔ گائوںملتان خورد کی آبادی 14686 ہے جبکہ گھروں کی تعداد 2722ہے ۔بہرحال نئے ضلع اور نئی تحصیل ہر لحاظ سے عام آدمی کو سہولیات فراہم کرنے اور ملکی تعمیر و ترقی خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہیں۔دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نیک کام کے کارندوں کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرے۔
ضلع چکوال کے العموم تمام سیاستدانوں اور بالخصوص اس حلقہ کے تمام سیاستدان(یونین کونسل سے لیکر ایم این اے) تک ابھی تک کسی نے چپ کا روزہ نہیںتوڑ ااور نہ ہی اس میدان حرب میں نکلے۔اور نہ ہی انہوں حق نمائندگی ادا کی۔
حالانکی عوامی حقوق کے حصول، اور عوام کے ساتھ وعدہ خلافیوں اور اپنی سابقہ کوتاہوں کے ازالے کا اس سے بہتر اورسنہری وقت کبھی میسر نہیں آئیگا۔ نئے ضلع سے جتنا فائدہ سیاسی اشرفیہ نے اٹھاناہے ،اتنا عوام نے نہیں ۔کیاحسب سابق اس علاقہ
کوکسمپرسی ،درماندگی اور بے کسی پر نادم ہونے کی بجائے خوشی کی سارنگیاںبجائیں گے۔اگرسیاسی اشرفیہ اسی گوںمگوں کی کیفیعت مبتلا رہی۔تو 2023ء کے الیکشن میں سیاسی پہلوانوں سے اس معانی خیر خاموشی کی با ز پرس ضرور ہو گی۔حالانکہ جب مجوزہ ضلع تلہ گنگ کے حق میں ما سوائے سردار ممتاز خان ٹمن اور انکے نواسے کے۔جنہوں نے سوشل میڈیاپر ایک بیان داغ کر عوامی غصے کے غیظ و غضب سے جان خلاصی کرالی ۔باقی ہر سو ہو کا عالم ہے۔کیونکہ اندرون خانہ چندسیاسی اشرافیہ انجانے
خوف میں مبتلا ہیں ۔کہ تلہ گنگ ضلع بننے سے کئی علاقوں میں اُنکی سیاسی تسلط کی گرفت ڈھیلی پڑھ جائیگی۔یہاں فارسی کہااوت یاد آ گئی کہ” مرد کسی است کہ از مال و قدرت مست نباشد۔۔ھشیاری در ھنگام مستی آسان است ،اما مست شدن یا قدرت دشوار است” ۔ترجمہ:مرد وہی ہے جو دولت یا اقتدارکے نشے میں مست نہ ہو۔ شراب پی کر ہوشیار رہنا آسان ہے۔مگراقتدار کے نشے میںمشکل ہے۔اقتدار کے پجاریوںسے گزارش ہے ۔کہ انجانے خوف،وحشت اور دہشت کا لبادہ اوڑھنے کی بجائے ماضی کے اقتدار کے نشے میں مست ہوکر میدان عمل میں آجائیںاور اس جدو جہد میں اپنا کاندھا دیں۔
٭چوہدری پرویز کو یاد دہانی٭ (مزید براں سابقہ وعدوں کی تکمیل کیلئیپنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کویہ یاد ہانی ضروری ہے ۔کہ انہوں نے2018ء کے الیکشن کے لاوہ میں رات گیارہ بجے انتخانی جلسہ بر ملا اعلان کیا تھا ۔کہ میں حلقہ این اے 65 کے پر عوام کا مجھ پرپہ قرض ہے کہ لاوہ کی پسماندگی دور کرنا ، لاوہ کو سوئی گیس کی فراہمی اور ہسپتال کو اپ گریڈ کروانا میرا اولین مشن ہے ۔جو ہم ضرور اتاریں گے۔ لیکن تاحال یہ تمام وعدے چوہدری صاحب کی توجہ کی طالب ہیں۔اُمید واثق ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں پس و پیش نہیں کرینگے۔بلکہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے ۔تاکہ عوام کے ساتھ سیاسی دوغلی پالیسی اپنانے والوں کی آنکھیں چندہلاجائیں ۔
٭مسلم لیگ نون کا لالی پوپ الیکشن 2013کی انتخابی مہم میں نواز شریف نے”گورنمنٹ ڈگری کالج میں جلسہ عام میںاہل تلہ گنگ سے چار چکمے دئیے۔ جن میںتلہ گنگ کو ضلع بنانا۔٢۔ یونیورسٹی کا قیام۔٣۔ بلکسر انٹر چینج سے ڈیرہ اسماعیل خان تک موٹر وئے کی تعمیر ۔٤۔ تلہ گنگ میںجدید ہسپتال کی تعمیر شامل تھی۔ پھر 2013 کے ضمنی الیکشن میں حمزہ شہباز نے یہی وعدے دہرائے۔ نون لیگ نے لارے لپے اور لالی پوپ دیکر حکومت کی۔جبکہ علاقہ کے نمائندوں نے ڈنگ ٹپائو
کی پالیسی پر گامزن رہے۔یاد رہے نون لیگ کے دورحکومت میں بھکر، حافظ آباد، خانیوال کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔جنکی آبادی تحصیل تلہ گنگ کی آبادی سے کم تھی۔ لیکن اہل تلہ گنگ اس بہتی گنگا سے ہاتھ نہ دھو سکے۔کیونکہ حکومت اور نمائندوںنے غریب عوام سے ”سوتیلی ماں ”جیسا سلوک روا رکھا۔مزید٭2103 کے الیکشن میں گورنر پنجاب لطیف کھوسو نے گورنمنٹ کالج کے جلسہ میں برملا اعلان کیا۔کہ میں مرکزی حکومت کو” ضلع تلہ گنگ ” بنانے کی سفارش کرونگا۔جو سراسر دروغہ گوئی پر مبنی تھا۔کیونکہ ضلع بنانا مرکز کانہیں صوبائی اختیار میں ہے۔بحرحال سیاسیوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا کہ وہ ووٹروں کودھڑے بندی کا سوپ پلا کر اُنکی دکھتی رگ دَباکر اَپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔
٭ لاوہ کی تاریخ:٭دو بڑے فلک بوس پہاڑوں کا سلسلہ کوہ سکیسر، کوہ کالا باغ ا ور وادی نمل کے دامن میں تا حد نظر پھیلا تحصیل لاو ہ(ضلع چکوال) واقع ہے جوکسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ِایشا ء کا سب سے قصبہ نالہ ترپی کے کنارے پر واقع ہے۔ جوضلع چکوال اور ضلع میانوالی کے سنگھم پر واقع ہے۔ یہاں کی آبادی ز یادہ تراعوان قبائل پر مشتمل ہے۔ جن کا گزر اوقات کھیتی باڑی پر ہے۔رقبہ سر سبز و شاداب کھیتوں اور کھلیانوں پر مشتمل زمین نہیں بہشت کا گوشہ دکھائی دیتا ہے۔نصف صدی سے زائدمیری صحافتی زندگی بہت سے تلخ و شریں حوادثات و واقعات سے دو چار ہوئی ۔اس نصف صدی پر محیط سیاسی دنگلوں کی تاریخ ڈھونڈنے اور کھوج لگانے کیلئے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ورق گرانی کرناپڑی۔ راقم ماضی کے دریچوں کی ورق گرانی کرساتھ فکری سطع کا جائزہ لیکر تاریخی حقائق کو ریکارڈ کا جائزہ پیش کر رہا ہے ۔تاکہ ہماری نئی نسل کو اپنے علاقہ کے ہر پہلو سے بخوبی آگاہ رہیں۔اس سک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہم نسل در نسل موروثی وڈیرہ شاہی ا وربرداری ازم کے شکنجوں میںجکڑے ہوئے ہیں۔ جہاںشہری حقوق میں مکمل برابری کا درجہ، جان، مال، عزت و آبرو اور ثقافت کا تحفظ نقل و حرکت کی آزادی اور تحریر و تقریر کی آزادی نہیں۔علاقائی ترقی کیلئے یہ علاقہ آج بھی ضلع چکوال اور تحصیل تلہ گنگ کے وڈیرہ ازم کے چنگل سے آزاد نہیں۔جسکی بنیاد وجہ ہماری باہمی نا اتفاقی اور سیاسی ناچاکی ہے۔اسکی بنیادی وجہ علاقہ کے سیاسی معززین کی ناچاکی ،نا اتفاقی اور باہمی چپقلش ہے۔اگر ان معززین کا یہی رویہ رہا ،تو شائد قیامت تک اس علاقہ کی ترقی کا خواب شرمندہ تعمیر نہ
ہوسکے۔خدا را نئی نسل کوجدید دور کی سہولیا ت سے استفادہ کے حصول کیلئے ”اتفاق و اتحا”د کا دامن پکڑیں۔ورنہ نئی جنریش ہمیں کھبی معاف نہیں کرئیگی۔اور روز محشر انکا ہاتھ ہماری گردنوں پر ہوگا۔
٭لاوہ میں عوام قبیلہ کے فرزند افواج پاکستان، قومی اور صوبائی دفاتر میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔خصوصاً تحصیل لاوہ کی قدیم آبادی اپنی منفردتاریخ، ثقافت اور اسراف ماحول کی بنا پر تاریخ دانوں نے اس گائوں کو جنوبی ایشائ
کے سب سے بڑے گائوں کے اعزاز سے نوازاہے ۔٭2017کی مردم شماری کے مطابق تحصیل لاوہ کی کل(شہر ی اور دیہی) آبادی 1لاکھ25ہزار 770ہے اور گھروں کی تعداد2,2,596ہے۔جس میں لاوہ شہر کی دیہی آبادی1,5,627ہے اور لاوہ شہر میں گھروں کی تعداد 2,902ہے۔جبکہ 1لاکھ ایک ہزار266افراد دیہی علاقوںمیںرہائش پذیر ہیں اورخانہ شماری کے مطابق دیہی علاقے میں 19 ہزار 94گھر ہیں۔ تحصیل لاوہ کے گائوں پچنند کی دیہی آبادی15121اور گھروں کی تعداد2570 ہے۔ تحصیل لاوہ کے گائوں ڈھرنال کی آبادی 14015اور گھروں کی تعداد2601 ہے۔
٭ماضی کی کچھ تلخ حقیقتیںاور یادیں وقتی طور پر تو فراموش ہوجاتی ہیں یا کر دی جاتی ہیں۔ مگرانسان کامل عمیق سے زندگی کی شاہراہ پر ماضی کے بند دریچوں کو کھولنے، اندر جھانکنے اور عمل پیرا ہونے سے اپنے حال اور مستقبل کی راہیں متعین کرسکتاہے۔ آج سے پہلے کئی دہائیوں کی رشتہ داری،براداری ازم اور ہمسائیگی کے حسین لمحوں کو بھلا نا ممکن نہیں۔انسانی کے اندر کہیں دبی تلخ یادیں اور حقیقتیں دوبارہ سے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں سلگنے لگتی ہیں۔جنکی تپش اور ان یادوں
کے ربط وتعلق ہماری قومی ، ملی اور علاقائی وحدت یکجا ہو سکتی ہے۔اگر انسان معاشرے میںاتحاد ویگانگت کارشتہ استوار کرلے تو یہی معاشرہ میں” جسم سے روح جیسارشتہ” قائم رک دیتاہے۔اگر انسان تکبر اور بد اسلوبی سے خود غرضی،خود رائی،بد وضعی کے عالم میں مطلق العان سمجھ لے۔تو یقینا انسانی روح ان اذیت ناک لمحوں میں زخمی ہو جاتی ہے ۔اور اِس پْر آشوب دور میںعصر حا ضر کے برق رفتار ترقی کی گہما گہمی نے معاشرہ کو ضیعف بنا دیا ہے۔ساتھ ہی ذہنی انتشار عروج پر اور قالب خاکی متعدد
بیماریوںکی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔علاوہ ازیں عدیم الفرصتی (مصروفیت)کے عالم میںماضی کی تمام رسموں اور روایتو ں کارواجوں کا مکمل جنازہ نکل چکا ہے ۔آئیے اپنی ضمیر کی آواز سن کر اَپنی علاقائی عزت وتوقیر کو بچا نے کیلئے موروثی سیاست کو سر عام پھا نسی دیںیا اِس ”موروثی خچر ”کی کاٹھی توڑ کر اپنے زور بازو سے قدموں پر چلنا اور کھڑا ہونا سیکھیں۔ورنہ اِس پر ا جیکٹ سے فاشزم کی کونپلیں پھوٹتی رئیں گئیں۔جو ہماری نئی نسل غلامی کی زنجیریں پہنچاتی رہیں گی۔آج اس معاشرتی دشمن کونپل کی آبیانی
کی بجائے بیخ وبن سے اکھاڑ کر اس ”بنیاد فساد ”کومٹنانے ضرو ر ی ہے ۔کیونکہ دن بدن بدلتی سیاسی ڈپلومیسی کی” تغابن” (فریب کاری)کو زمانہ شناسی سے پرکھنا ہر متوسط طبقہ کا فرض اولین میں شامل ہے۔ رویہ نہ بدلا تومُدام(بلا ناغہ) بدلتے حالا ت آئندوروند”(ماضی کے واقعات )کی روشنی میں نیست و نابود کرنے کے ساتھ حالات منقلب(گردشی گھڑیوں) کی وحشت ہر ووٹر کوکوزہ پشت(خمیدہ کمر) کر دیگی۔خدارا اپنی نئی نسل کو سیاسی ”کاسہ آتشیں”(سورج کی تپش) سے قبل از وقت کبجا
(کبڑا)کرنے اور دست نگری(محتاجی) سے بچائیں ۔دریچہ(روشن دان) دل و دماغ کھول کرفتنہ پردازکے سریع السیر(بدلتے) حالات غفلت کا پردہ چاک کرنااور منفی سیاسی سینہ زوری کے علاج کو حتمی شکل دینا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے ۔ہمیں مفکر پاکستان علامہ اقبال کے قول کو غرفہ (گوشئی تنہائی)ضرور سوچنا چائیے۔تبھی ہم موروثی سیاسی مے فروشی کے نشہ بے خودی اور خود فراموشی کے خمار سے باہر نکل پائیں گے۔
دیکھ ماضی کے دریچوں کو کبھی بھولا نہ کر
گم گشتہ لمحوں سے کبھی بے نیازنہ ہو اکر
٭ میونسل کمیٹی کا پہلا معرکہ٭ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے تحصیل لاوہ ضلع چکوال کی پہلی میونسل کمیٹی جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹیفکیشن نمبر F.4(1)2020.LGE(P)َمورخہ 18 ستمبر 2020 ( یکم اکتوبر 2020 کے گزٹ آ ّف پاکستان اور پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 سیکشن 84) کے تحت میونسپل کمیٹی لاوہ(اربن)” کوسیریل نمبر11پر دیکھایا گیا ہے۔جبکہ میونسپل کمیٹی میںشہری وارڈوں کی تعدا د گیارہ جبکہ تین مخصوص نشستیں ملا کر پندرہ بنتی ہیں۔پہلی میونسل کمیٹی میں بلدیاتی الیکشن 22 دسمبر 2016 کومنعقدہ ہوئے۔جن میں مسلم لیگ ”ق ” کے نو ارکان جیتے۔ جبکہ چار ارکان مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر جیتے۔ بعد ازاںدس اراکین کی حمایت سے ملک قدیر الطاف چیئرمین اور ملک آصف نوازمنتخب ہوئے۔ اُنکے مد مقابل مسلم لیگ ن کے ملک عادل خان ایڈوکیٹ اور مکھانہ خان کو پانچ ووٹ لیکر شکست سے دوچار ہوئے اُنکی کامیابی پر پٹاخوںسے پورا شہر لرز اُٹھا تھا مگر یہ خوشی دیرپا ثابت نہ سکی۔٭(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹیفکیشن نمبر F.4(20)/2016/LGE(P) مورخہ28دسمبر 2016 کے مطابق چیئرمین ملک قدیر الطاف اور وائس چیئرمین کو آصف نواز کامیاب قرار دیئے گئے)۔مگر بلدیاتی نمائندے الیکشن میں لاوہ کی غیور عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میںبڑی طرح ناکام رہے ۔اُسکی بنیادی وجہ یہ تھی ۔یہ وقتی اتحاد دیر پا ثابت نہ ہوسکا۔ کیونکہ ابتداء ہی سے اس اتحادمیں نمودیا، گھمنڈ اور اَنا پرستی کا اثر نمایا ں تھا ۔ آخر کارسیاسی کشمکش کا نتیجہ عدم اعتماد نکلا۔
٭ مونسپل کمیٹی میں پہلا عدم اعتماد:٭تقریباًایک سال بعدپندرہ جنور ی 2018 کو مسلم لیگ ق اور نون کے پندرہ میں سے تیرہ ارکان (بشمول وائس چیئر مین)نے چیئرمین ملک قدیر الطاف پرعدم اعتماد کااظہار کیا۔ (یہ نو کونسلر مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے)۔٭ ملک قدیر الطاف نے عدم اعتماد کے خلاف ہائی کورٹ سے بیس جنوری2018 حکم امتیازی لے لیا ہے.۔ ابتدائی سماعت میں عدم اعتماد کرنے والے ممبران کو نوٹس جاری ہوئے ۔جسکی سماعت آٹھ فروری 2018 مقرر ہوئی۔بعدا زاںسپریم کورٹ نے 25 مارچ 2021 کو 18صفحات پر مشتمل فیصلہ میں بلدیاتی اداروںکوبحال کر دیا۔مگر حکومت کے شش و پنچ اورہچر مچر( پش و پیش) سے معاملہ جوں کا توں رہا۔یوںلاوہ کے عوام مسائل کے گرداب سے نہ نکل سکے۔ نہ ہی آج تک کوئی مسیحا میدان عمل آیا۔تمام نمائندے زاتی اور اجتمائی رنجشوں کو بلائے طاق رکھ کرعوامی مسائل کے حل کیلئے اجتماعی کاوشیں کریں۔تاکہ کل عوام عدالت میں پیش ہونے کے قابل ہو جائیں۔
لاوہ ہسپتال کی حالت زار:تحصیل لاوہ میںکئی کنا لوں پر محیط بنیا دی مر کز صحت غا لباََ 1970 کے عشرے میں قا ئم ہوا تھا ۔لیکن نصف صدی گزرنے کے با وجود ابتک اپ گریڈ نہ سکا۔یہ دیہی بنیادی صحت سینکڑوں میل رقبے پر محیط اس دیہی آبا دی کو طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔بغلیں بجانے والے عوامی نمائندوں کا فرض اولین ہے کہہسپتا ل کی اپ گریڈنگ کیلئے تحصیل و ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ملکر لاوہ ہسپتال کو ڈی اٰیچ او کا درجہ دلوائیں۔(صرف الیکشن اور سلیکش کے دنوں میں عوام کی دہلیز یاد رکھنا مفیص کے زمرے میں آتا ہے۔جبکہ نمائندگان کاعوامی خدمت اصل شعار ہونا چائیے)۔ایمر جنسی کیلئے ہسپتال میں کم از کم دو ایمبولینس موجود گی از حد ضروری ہے ۔حالانکہ مرکز میں دو لیڈی ڈاکٹرز کی آسامیا عرصہ سے خالی ہیں یا یہاں سے کسی ہسپتال میں ٹرانسفر کر لی گئی۔لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی سے ڈیلوری کیسزمیں آنے والے اخراجات ختم نہیں تو کم از کم نصف ہو جائیں گے۔ کئی دفعہ مریض سفری صعبو تیں برداشت نہ کرسکنے سے راستہ ہی میں اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں ۔ اس علاقہ کی غریب عوام اپنی صحت کے حوالے سے زیادہ تر انحصار اکلوتے سرکاری مرکز صحت لاوہ پر ہے ۔کیو نکہ غر بت کی وجہ سے وہ علاج معالجہ کے اخرجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ۔ لیکن شو مئی قسمت سے اس ہسپتال کی حالت نہ گفتہ بہ ہے ۔ جس میں ہارٹ اٹیک،بلڈپریشر، شوگر جیسی موزی امراض کی دوا ئوں کا تو نام نشان نہیں ۔ ٹیسٹ لیبارٹر ی نہ ہونے کے برابر ہے۔ٹیسٹ کی رپورٹ ہاتھ سے لکھ کر بغیر دستخطوںسے مریض کو تھما دی جاتی ہے ۔(اس جدید دور میں نا آزمودہ کار عملہ ”پرانی رسومات کے مقلد ” کارندے حسب سابق ڈ گر پرگام فرساںہیں )۔اس ۔ٹیکنکل سٹاف کو کیمپیوٹر اور دیگر ضروری تربیت کیلئے بڑے ہسپتالوں میں تعینات کیاجائے۔ ڈی ایچ کیو چکوال کے ایم ایس ڈی صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاوہ ہسپتال کا دورہ کریں۔ا ور وہاں درپیش مسائل اور مشکلات کیلئے اپنی فرائض منصبی پورا کرتی ہوئے محکمہ صحت پنجاب کو ہسپتال اور سٹاف کے بنیا دی مسائل کی جامع رپورٹ ارسال کر کے طرح توجہ مبذ ول کرائیں،جو ارباب اختیار کی توجہ کے طالب ہیں۔جناب اے سی صاحب اور میڈیکل آفیسر کی عطائوں کی بیخ کنی کیلئے میدان عمل میں آ کر غریبوں کی جیبوں پر داکہ زنی کرنے والوں کا نکیل ڈالیں۔یہ اہل دیہہ پر احسان عظیم ہو گا۔مزید پولیو مہم کے دوران لیڈی ہیلتھ ورکرزمیلوں سفرپیدل چل کر کے اپنا کام نمٹا رہی ہیں۔ارباب بست و کشاد ( لیڈی ہیلتھ ورکرز) کو اپنی بیٹیاں سمجھ کرانکو در پیش مسائل کا ازالہ کیلئے بر وقت قدم اٹھائیں ۔یہ انکی محکمانہ اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔
٭ ٹراما سنٹراورزچہ بچہ سنٹر کا قیام: ہسپتال میں رائج محکمہ صحت کے قوائد ضوابط جس پر پورا ہیلتھ نظام کا دارو مدار ہے ۔جبکہ لاوہ میںٹراما سنٹر، ریسکیو 1122 اور زچہ بچہ سنٹر کا قیام وقت کی اولین ضرورت ہے۔کیونکہ دندہ شاہ بلاول سے گزرنے میں بین القوامی سڑک سینکڑوں شہروں اور دیہاتوں کو ملاتی ہے ۔اِس سٹرک پر چو بیس گھٹنے ٹر یفک رواں دواں رہتی ہے ۔جہاں پر روڈ ایکسڈنٹ کا ہونا فطری عمل ہے۔ لیکن زخمیوںکوابتدائی بر وقت طبی امداد کے لئے نزدیک کوئی طبی مراکز
نہیں۔ طبی امداد نہ ملنے سے کئی اموات واقع ہو جاتی ہیں ۔تحصیل ہیڈ کوارٹرہونے کے ناطے لاوہ میںیہ سہولتیں نا پید ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لاوہ ہسپتال لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے سے گردو نواح دیہی آبادی میں زیچہ کی بروقت ڈلیوری اور بچہ کی حفاظت کا کو ئی بندو بست نہیں۔ ارباب اختیار لاوہ ہسپتال میں ٹراما سنٹراورزچہ بچہ سنٹر کاقیام وقت کی اولین ضرورت ہے۔
٭لاوہ واٹر ورکس سکیم اور سیاسی قلا بازیاں:ہمارا قومی،علاقائی اور معاشرتی المیہ اور بد قسمتی ہے ۔کہ دوران الیکشن ”سیاسی انگڑیوں،پر تولیوں اور نعرہ بازیوںکے ”بدل اشتراک ”سے عوامی دماغی اور جسمانی ٹمپریچرکے افزونی سے حافظہ پر سیاسی جوش خروش سے پانی کے بلبلے کی طرح نہایت ہی بار آور ہو جاتا ہے ۔مگر یہ کھدبدانا(جوش) الیکشن کے بعد ماند پڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ جیتنے اور ہارنیوالے دونوں خانہ نشینی سے عوامی آہ و بھگت میں کمی آجاتی ہے۔جبکہ یہ اکانت اور عزلت(تنہائی) ووٹروں کوگراں گزرتی ہے۔مگر سیاست ایسا نشہ ہے جسکا آج تک کوئی ” ثیراق یا تدارک”(علاج) ایجاد نہیں ہوا۔مگراس آشفتہ (بدحواسی)کے متعلق فارسی کی کہاوت ملاحظہ فرمائیں”چوشد زہر عادت مضرت نہ بخشد۔ترجمہ:جب زہر خوری عادت بن
جائے تو وہ نقصان نہیں کرتی۔بحر کیف بدلتے حالات و واقعات کی روشنی میں ووٹروں اورسپورٹر سیاست دانوں کے فیصلوں کو بروقت اور صحیح ماننا،اور کڑوے زہر آلود کیپسول کو نگلنا اس لیے مجبوری تصور کیا جاتا ہے ۔کیونکہ ان فیصلوں کو علاقائی موروثی
وڈیرہ ازم کے کئی نا د ید ہاتھوںکا آشیر باد حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ عوامی من مرضی کے فیصلے کوشجر ممنوع اور سیاسی حق تلفی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس غل غپاڑا، چیخم چاخ اور سیاسی ہلڑ بازی میں عوامی کام فقط نعرہ بازی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات سیاسی منظر نامہ” کے منڈلاتے بادلوں کی ظہورپذیری سے سیاسی اور علاقائی نقشہ یکسر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ جسکے باعث ووٹر ،سپورٹر اور عوام حیران وپریشان اور ششدر رہ جاتے ہیںمگر بہ امر مجبوری یہ گولی بھی نکلنا پڑتی ہے۔بعد ازاںفارسی کی
اس ضرب المثل کا وردکرتے نظر آتے ہیں۔”ای دوست من حتیٰ اگر روی سر و چشما نم بنشینی باز ھم دوستت خواھم داشت، چون تو عزیز منی ہمیشہ ھمہ چیز زیبا و زیبارا دوست داشتہ باشید”ترجمہ:اے میرے رفیق ۔اگرتو میرے سر اور آنکھوں پر بیٹھے گا، تو
بھی میں تیرے ناز اٹھاؤنگا۔ کیونکہ تو میرا نازنین ہے۔ ہمیشہ سندر(خوشنما)اور خوبصورت کے سب نازاُٹھاتے ہیں۔مگر اس ”سیاسی ڈرامہ کا بلیو پرنٹ اس لیے بے کار اور بے سود گنا جاتا ہے۔ کیونکہ” لتھا طمع، تاں پھرکہڑی اماں”۔ اب سیاسی مہربانوں کا کام تمام ہوا اور عوام کا سیاسی وڈیرہ شاہی کے ہاںچکر شرو ع۔ پھر اگلے الیکشن تک خدا حافظ۔
میونسپل کمیٹی لاوہ کے زیر انتظام واٹر ورکس سکیم کی ناکامی باہمی رسہ کشی اورسیاسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ سا تھ ہی لاکھوں روپے کے واجبات وصول نہ ہونے سے واپڈا اور دیگر ا خرا جات کی ادائیگی مشکلات کی زد میں ہے۔ لاوہ کی آبادی میں پانی کا حصول ،جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔جو خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔یاد رہے کہ یہ نان پے منٹ کا ایشو آجکا نہیں بلکہ یہ واٹر ورکس سکیم کا ّغاز سے ہے۔اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کئی بااثر شہر ی موٹروں سے پانی لینا یا کھیچنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ لیکن واجبات کی آدائیگی سے انکا کوئی سرو کار نہیں۔مگران باسیوں کے ساتھ سر ا سر نا انصافی ہے۔ جو بل کی آدائیگی کے باوجود پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ اس بنیادی اہم انسانی مسلے پر سیا سست چمکا ر کی بجائے عوامی خدمت کو شعار بنانا چائیے ۔مگر شہر کے کلی
محلوں میں یہ بحث عام ہے۔ کہ یہ بعید از قیاس نہیںجب ماضی کایہ نعرہ دوبارہ ”زبان از عام ”ہوگا ۔لگنا شروع ہو جائے۔”ٹر کے آویں دیگر(عصر) ویکھیں لاوے دی۔(یعنی لاوہ کی عصر کا نظارہ کرنے کیلئے پیادہ آنا) ۔مگرماضی میں وسائل کی کمی کے
باعث نالہ ترپی سے مستورات پانی کے گھڑے سر پر اٹھا کر مشہور”اوٹھیوں والی پدھی ”چڑھ کرآتیں تھیں۔(مگرشنید ہے اس غیر تہذینی رسم کے خاتمے میں ”ملک حاکم خان برمال(مرحوم) ” کا مثبت کردار رہا)۔مگر آج کے جدید دور میں ایسانعرہ ہماری ”
جدید دور کی معاشرتی اور سیاسی زندگی ”پر سولیہ نشان نہ بن جائے۔بلا شبہ تما م علاقائی ، رفاعی اوراجتماعی کام اتحاد و یگا نگت اور باہمی گفت و شند سے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے جنگ ہنسائی اور اُنگل بازی سے بچا جا سکتا ہے۔سیاسی کشتی اورجگت بازی کا مقابلہ
سیاسی میدان میں ہونا چائیے۔نہ کہ عوامی رفاعی کاموں میں رکاوٹ ڈال کر۔
ڈگری کالج کا قیام:دُینا میں تہذیب و تمدن کی بلند عمارتیں جدید علوم کی بدولت ممکن ہوئیں۔ دُینامیں قدیم علوم عربی اور فارسی ہیں۔ جبکہ جدید علوم انگریزی زبان میں ہے ۔جو تمام تر سائنسی حقائق،نظریہ ارتقا ء ،نظریہ اضافیت پر مبنی ہے۔ جبکہ سماجی علوم عمرانیات اور اینتھروپولوجی میں دستیاب ہیں۔جبکہ موجودہ دور میں رائج الوقت طریقہ تعلیم کے ساتھ ٹیکنکل کالج یا سکول اس بات ضمانت ہے کہ ہم 21ویں صدی کے تقاضو ں کو پورا کریں ۔ آج کے پُرآشوب اور تیز ترین دور میں حصول تعلیم نہایت اہمیت کا حامل ہے۔تقاضا وقت ہے کہ بنیادی عصری تعلیم،ٹیکنکل،انجینئرنگ اور دیگر مختلف جدی علوم کا حصول زندگی کالازمی جزو بنا لیں۔تبھی جدید دُینا کے شانہ بشانہ چل سکیںگے ۔دینی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ کہ ہم اپنی اولاد کو”دین مبین” کے زریں اصولوں سے روشناس کرائیں ۔مگر رائج الوقت اور ٹیکنکل تعلیم سے بھی انکاری ممکن نہیں۔
ضلع چکوال کی نوزائیدہ اور پسماندہ تحصیل لاوہ اور گرد نواح کی آبادی کے طالبعلم ہائی سکول سے فارغ التحصل کے بعد موجود ہ انٹر کالجز(میل اور فی میل) میں زیر تعلیم رہتے ہیں۔مگر یہاں سے فراغت کے بعد یہ طالبعلم اس لیے گھر
بیٹھ جاتے ہیں۔اس دیہی آبادی کے متوسط طبقہ کے لوگوںکے کم مالی وسائل اور ہوشر با مہنگائی دور میں ا پنی اولاد کو تلہ گنگ ،راولپنڈی میں حصول تعلیم کیلئے بھیجنا تو کجا سوچ بھی نہیں سکتے۔ والدین کی اس پریشانی اورسرگردانی میں انکا کوئی پرسان حال
نہیں ہوتا ۔بے شک تعلیم صرف ڈگر ی کے حصول پر مو قوف نہیں ہوتی ۔بلکہ ڈگری تعلیمی کے اخراجات اور معیا تعلیم کی شناخت کی رسید ہوتی ہے۔ آجکل کی اولاد کو یہ سمجھاناضروری ہے کہ تعلیم صرف حصول روزگار اور حاصل کیلئے سرٹیفکیٹ ہی نہیں ہے۔ بلکہ تعلیم کااصل مقصد قوم کو باشعور بنانااورجدید تقاضوں سے استور کرنا ہے ۔تبھی معاشرتی زندگی میں ایک باشعور آدمی ہی غلط اور صحیح کے درمیاں فرق یا تمیز کر سکتا ہے۔ جبکہ علم انسان کی گفتگو اور عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔مگر تعلیم سے زیادہ ہمارا رویہ انتہائی اہم ہوتا ہے۔کیونکہ جہاں تعلیم کے دائو پیچ ناکام ہوتے ہیں۔وہاں انسانی مثبت رویہ معاملات سدھارتے میں مدد گارہوتا ہے ۔
٭قرآن مجید میں تقریباً پانچ سو مقامات پر حصول تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی۔ علم کی فرضیت کا برای راست بے شمار احادیث بھی آتا ہے۔حضور نبی کریم ۖ کا ارشاد فرمایا۔کہ”حصول علم تمام مسلمانوں پر (بلا تفریق مرد و زن) پر فرض ہے۔بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلامان مرد و زن پر فرض ہے۔رسول اللہ ۖ کا فرمان مبارک ہے کہ ترجمہ: جو شخص علم کی جستجو مین کیس راہ کا مسافر ہوا۔ الیی تعالیٰ اسکے لئے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے۔( مسلام الذکر وادعائ6793 )۔ایک روایت ہے۔کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ جو شخص طالب علم کیلئے کسی راستے پر چلا، اللہ تعالیٰ نے جنت کے ایک راستے پر چلا دیا۔تعلیم ہی انسان کو خدا پرستی، عبادت، محبت،خلوص،ایثار، خدمت ِ خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔عقل کو خواہش پر تعلیمی میدان می ںاس لئے فضیلت حاصل ہے۔کیونکہ عقل انسان کوزمانے کے زیر اثر کردیتی ہے۔جبکہ خواہش انسان کو زمانے کا غلام بنا دیتی ہے۔ان تمام دُینا وہ دکھوں ،تکلیفوں کا صرف مداوا یہی ہے کہ ارباب اختیار موجودہ کالجز کو اپ گریڈ کرکے ڈگری کالج کا درجہ دلوائیں ۔ ساتھ ہی اس جدید دور کے شانہ بشانہ چلنے کیلئے ان کالجز میں ٹیکنکل کی کلاسز کا اجرا بھی ضروری ہے۔تاکہ یہ غریب لوگ اپنی بساط کے مطابق اپنی اولاد کو تعلیمی زیور سے آراستہ کر سکیں۔٭ہم بطور مسلمان سب مذہبی رشتے میں منسلک ہیں۔یہ رشتے خواہ معاشرتی ہوں،خونی ہوں، یا سیاسی ہوںکبھی نہیں مرتے۔بلکہ انسان خود انکو بسمل گاہ میں دھکیلاتاہے۔کبھی تکبرسے،کبھی نفرت سے، کبھی طعنہ تشنہ کبھی نظراندازی جبکہ کبھی غلط فہمی کا شکار ہو جاتے۔ہیں لہذا اختیار برتیں۔جیساکہ انسان جب منافقت کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتا ہے ،تو خود بخود اُسے جھوٹ،فریب، دروغہ گوئی کی عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جس سے اسکی عز ت وناموس کر خاک میں مل جاتی ہے۔انسان معا شرتی زندگی میں ہر کام کرنے میں تیاری اور چانچ پڑتال کرتا ہے۔ مگر قبر میں اترنے سے پہلے کوئی تیاری نہیں کرتا۔مگراے انسان تجھے اوقات کا اس دن پتا چلے گا۔ جب لوگ تجھ پہ مٹی ڈال کر ہاتھ بھی تیری قبر پر جھاڑیں گے۔اس تمہید کا مقصد یہ ہے۔کہ محکمہ تعلیم کے ارباب بست و کشاد ان غریبوں پر ترس کھا کر انکا جائز مطالبہ پورے کرنے میں پس و پیش کرنے کی بجائے عملی جامہ پہنائیں۔اور غریبوں سے دُعائیں لیں۔” جذاک اللہ”
٭نالہ ترپی پر بند:لاوہ شہرکے جنوب میں گزرنے والے تالہ ترپی پر بند باندھ کر بارشی پانی کا ضیاع روکا جا سکتا ہے۔جبکہ بند کی سیم کا لیول افقی سطع پر آنے سے علاقہ میں پانی کی کمی پوری ہونے کی توقع ہے۔اس ڈیم سے لاوہ میں واٹر ورکس سکیم پوری طرح فعال ہو نے سے پینے کے پانی کا مسلہ بھی حل ہاجائے گا ۔کیونکہ ابتداء میں واٹرورکس سکیم کا پانی اسی نالہ میںکھودے گئے کنوئوں سے سپلائی ہوتا تھا۔پورے پاکستان کی طرح پوری تحصیل لاوہ اور بالخصوص میونسل کمیٹی( اربن) اور یونین کونسل (رول) میں زیر زمین پانی کی سطع تقریباً 700 فٹ نیچے گر چکی ہے۔جس سے زمینوں میں نسب ٹیوب ویل اور گھروں میں ہینڈ پمپوں میں نہ ہونے کے برابر رہ گیا ۔ دن بدن پانی کی سطع کا لیول گرنے سے تحصل لاوہ اور ملحقہ آبادی خشک سالی اورپانی کی نایابی سے کسان اور گھریلوں صارفین پریشانی کا شکار ہیں۔جناب اسسٹنٹ کمشنر لاوہ اور تحصیلدار سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ علاقہ کا دورہ کریں۔ اور ”نالہ ترپی پر بند” کی تعمیر، ضرورت ، افادیت پر جامع رپورٹ مرتب کرکے ڈی سی چکوال اور محکمہ آبپاسی چکوال اور لاہور کو ارسال کریں۔تاکہ پانی کمیابی کا سد باب ممکن ہو سکے۔
٭ تھا نہ لاوہ :خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں پولیس کا محکمہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے معرض وجود میں آیا تھا ۔تاکہ کسی مظلوم کی داد رسی میں ظالم کا اثر و رسوخ آڑے نہ آ سکے۔ خلیفہ دوم نے فرمایا تھا کہ اگر دجلہ کے کنارے پر کتا بھی بھوکا مر گیا تو روز محشر اس کا حساب عمر سے لیا جائے گا ۔یہی عدم و انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے عمر فاروق کاعہد تاریخ ساز کہلایا اور پولیس کا محکمہ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود قائم و دائم ہے ۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عوم میں پولیس کے متعلق اچھا تاثر نہ ہونے سے اس محکمے سے دُور رہناہی عافیت سمجھتے ہیں۔ عوام کے ہاں یہ مثل مشہور ہے کہ” نہ انکی دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی اچھی” ۔لیکن یہ تاثر اس لئے بے وزن،بے وقعت ہے۔کہ اچھے اور بُرے لوگ معاشرہ کا حصہ ہیںاور تاقیامت تک رئینگے ۔اچھے اور نیک لوگوں جنکا مقصد اللہ کا قرب اور اللہ کی رضا ہوتا ہے۔اُنکی خدمات ،احسن کارکردگی ،متعلقہ گرافکس ،ممکنہ کوشش اور نیک اعمال کی وجہ سے نظام دُیناچل رہا ہے۔ جبکہ بد کرداراور معاشرے کیلئے صرف ناسور ہی نہیں بلکہ معاشرتی اقدار کوپائوں تلے روندنا اُنکا مشغلہ ہوتا ہے۔ عین اسطرح ہماری پولیس میںچند کالی بھیڑوں کی وجہ سے یہ پورا محکمہ بدنام ہ ضرورہو چکا ہے۔جسکا ارباب اختیارمحکمہ پولیس کوبد نامی کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے کوشاں رہنا چائیے ۔
٭1891ء میں انگریز دور میںلاوہ پولیس اسٹیشن قائم ہوا ،جو تا دم تحریر131سال بیتنے کے بعد اسی پرانی بلڈنگ میں لاکھوں میل محیط رقبے کو پرانی ڈگر پر چل کر کنٹرول کر رہا ہے ۔ اس تھانہ میں سٹاف کی کمی ، ملازمین کی رہائشی سہولتوں اور پینے کے پانی نایابی جیسے گھمبیر مسائل ارباب اختیار کی توجہ کے طالب ہیں۔( یاد رہے تھانہ میں لگے ہینڈ پمپ کا پانی کھارا ہے جو نہ پینے اور نہ بہانے کے قابل ہے۔لیکن تھانہ کی دیوار کے ساتھ ملحقہ کالج کی چاردیواری میں میٹھا پانی موجود ہے۔اگر
کالج انتظامیہ تھانہ کے بلمقابل مغرب کی جانب بورنگ کی یاپانی کی ٹینکی سے تھانہ میں کنکشن کی اجازت دے تو یہ مسلہ با آسانی حل ہو سکتا ہے ) ۔مزید پولیس کی نفری بڑھا نے اوررات کا گشت یقینی بنانے سے سنگین جرائم میں ملوث چوروں، ڈاکوئوں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی تبھی ممکن ہے۔ مزیدبراں گرفتار ملزمان کی تفتیش کیلئے فیلڈ میں جانے والے اہلکار وںکو سفری دشواریوں اور دیگر صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو لو پیڈ سرکاری ملازم کے ساتھ نا انصافی نہیں بلکہ ظلم کے مترادف ہے ۔ مزید برآں سنگیں نوعیت کے مرتکب ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس اہلکار اپنے ملی جذبے کے ساتھ شاہین کی طرح جھپٹ تو پڑتے ہیں ،لیکن انہیں محکمانہ تحفظ کی ضمانت نہیں ہوتی ۔ایسی وارداتوں میں جان کا نذرانہ دینے والے اہلکاروں کے لواحقین کی رہائشی اور تعلیم و تربیت کا خاظر خواہ بندوبست نہیں۔جدید دور میں پولیس کو کمانڈو ٹرینگ ،جدیدترین اسلحہ ،،موبائل فونز اور بکتر بند گاڑیوں کی فراہمی وقت کی اولین ضرورت ہے۔ احکام بالاکی بے توجہی اور ناقض انتظامات سے اہلکارواں میں بددلی پیداہوتی ہے۔ تھانہ کے اہلکاروں کو حکومت وقت مذکورہ سہولیات سے آراستہ کرے۔تاکہ تمام اہلکار ” پولیس کا فرض خدمت عوام کی ” نعرے کوعملی جامہ پہنا سکیں۔
٭یونین یاتحصیل کونسل (رورل) لاوہ: تحصیل لاوہ میںنئی یونین کو نسل لاوہ (رورل) کا قیام عمل میں آیا۔حکومت پنجاب لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈوپلپمنٹ ڈییارنمنٹ لاہور کے نوٹیفکشن نمبرSOR(LG)44.30/2015 مورخہ 16فروری 2017 کے تحت ضلع چکوال کی حتمی حد بندی کیمطابق 71یونین کونسلوں کی فہرست میں یونین کونسل لاوہ اربن (رورل) کو 68 نمبر پرہے۔ساتھ ہی مذکورہ نوٹیفکشن میں وضاحت کی گی ہے کہ تمام یونین کونسلوں کے ناموں سے
تعصب کے بغیر یونین کونسل کا دفترپہلے سے موجود یونین کونسل کی ملکیت والی دفتری عمارت میں قائم کیا جائیگا ۔ایسے حالات میں یونین کونسل کیلئے کوئی نئی عمارت تعمیر اور نہ ہی کرایہ پر لی جائیگی۔٭ جبکہ دوسرے سرکلر نمبر SOR(LG)07.13/2109مورخہ27 دسمبر2019 میںپنجاب لوکل گورنمنٹ کے تحت قائم ہونے والی مقامی حکومتوں کا چارٹ( ایکٹ، 2019)کے مطابق سیریل نمبر69پر یونین کونسل لاوہ (رول) ٭ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان
کے نوٹیفکیشن نمبر F.4(1)2020.LGE(P)َمورخہ 18 ستمبر 2020 ( جوگزٹ آ ّف پاکستان میں یکم اکتوبر2020میں چھپا)( پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 سیکشن 84) کے تحت تحصیل کونسل لاوہ(رورل) سیریل نمبر12پر ہے۔(پہلے دو اور تیسرے آڈر میںپنجاب کی تمام میونسپل کمیٹیوں اوریونین کونسلوں کو میونسپل کونسل اورتحصیل کونسل میں تبدیل کر دیا گیا ہے)۔
٭یونین کونسل لاوہ(رول)دگرگوں مسائل کی آماجگاہ بن چکی ہے ۔اس یونین کونسل کی بڑی آبادیوں ”چنگا، گوہل ،چکی شیخ جی میں ڈسپنسری کا اجرا ، پرائمری سکولوں کو اپ گریڈ نگ،خستہ حال سٹر کوں کی مرمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔اگر اس نئی یوسی کا نام”یونین کونسل چنگا ” یا ”چکی شیخ جی” رکھ دیا جاتا تو علاقہ کی شناخت بڑھ جاتی۔مگر قیام پاکستان سے لیکر آج تک اہل دیہہ کی حق تلفی کر نا، تھانے کچہری کی سیاست رگڑا دیکر اپنا اُلو سیدھا انکا وطیرہ بن چکا تھا ۔اس نئی یوسی کے قیام کے بعد اس آبادی کے مکینوں کو شہری اورنہ ہی دیہاتی سہولیات میسر ہیں ۔ کیونکہ سیاسی پنڈتوں کی پسند نا پسند،آنا پرستی،موروثی چکر بازیوں نے عوامی اُمنگوں کا گلہ گھونٹ دیا۔ مگرجب میاں الطاف احمد مرحوم عملی سیاست میں آکر (لاوہ مرکز اور یونین کونسل کی چیرمینی) ہتھا لی۔ساتھ ہی رئوسا کے شتر بے مہار کو لگام دی،عوامی کو اُنکا جائز مقام دلوایا،تھانہ کچہری کی سیاست کو دفن کیا۔ اُس وقت لیکرسے نئی حدبندیوں تک سیاسی مخالفین کے پیٹ میںمروڑ اُٹھتے رہے ۔مگر اس ”بھاری بھر ”پتھر کوسیاسی میدان سے ہٹانے کاحربہ کار گر ثابت نہ ہوا۔تو لاوہ سے چند فرلانگ دور چکی شیخ جی کی آبادی کو غیر مرئی قوتوں نے میونسل کمیٹی کی حدود سے نکال کریوسی لاوہ (اربن)میں منسلک کر دیا۔یوںیہ سیاسی میدان ہمیشہ کیلئے صاف ہوگیا۔
٭لاوہ کی تاریخی عمارتیں: ٭انگریز دور کی سرکاری عمارتیںیعنی1957 ء کی جنگ آزادی سے قبل اور بعد میںانگریز دَور میںتعمیر شدہ سرکار ی عماراتیں آج بھی لاوہ شہر میں موجود ہیں۔اور اُنکی تعمیر کے کتبے بطور گواہ نصب ہیں۔ انگریزوں نے اپنی رہائش کیلئے نالہ ترپی کو کراس کرکے(نزد” ڈوٹاکھوہ”) کے نزدیک” ڈاک بنگلہ 1855ء میں تعمیر ہوا۔بعد ازاں 1836 ء پوسٹ آفس ، 1861ء پولیس اسٹیسن لاوہ میں،1888 ء میںپرائمری سکول ،1920ء میںمڈل سکول، 1954ہائی سکول 1954ء تعمیر ہوئے تھے۔جو تاحال اپنی اصلی حالت میں موجود ہیںِ۔محکمہ اثار قدیمہ پنجاب خواب خرگوش سے بیدار ہوکر لاوہ کی ان تاریخی عمارتوںکو تاریخی ورثہ قرار دے۔اگر یہ تاریخی عمارتیں محکمہ آثار قدیمہ لاہور،اور ضلعی انتظامیہ
چکوال کی عدم توجہی کا شکار رہیں تو یہ کھنڈرات بن جائین گیں ہیں۔ان عمارات کا زکر اس لیے ضروری سمجھا۔تا دم تحریر لاوہ شہر میں انگریز دور کا ڈاک بنگلہ زمین بوس ہو چکا ہے ۔جبکہ تھانہ سمیت167 سال سے زائدبیت چکے ہیں۔لیکن تا حال اس
علاقہ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔اِسکی بنیادی وجہ علاقائی سیاسی ناچاکی ،نا اتفاقی اور باہمی چپقلش ہے۔اگر ہمارا یہی رویہ رہا ،تو شائد قیامت تک اس علاقہ کی ترقی کا خواب شرمندہ تعمیر نہ ہوسکے۔خدا را نئی نسل کوجدید دور کی
جدید سہولیا ت پہنچانے کیلئے اَنا کے جن کو پابند سلاسل کریں اور ”اتفاق و اتحا”د کا دامن پکڑ کر اپنے حق کے حصول کیلئے میدان عمل میں آئیں یں۔ورنہ نئی جنریش ہمیں کھبی معاف نہیں کرئیگی۔اور روز محشر انکا ہاتھ ہماری گردنوں پر ہوگا۔
٭لاوہ قدیم تاریخ :برطانوی دور حکومت میں، جہلم راولپنڈی ڈویژن کا ایک ضلع تھا ۔جبکہ تحصیل تلہ گنگ(بشمول لاوہ دندہ شاہ بلاول،ٹمن اور دیگر ملحقہ آبادیاں)اس میں شامل تھیں۔ جبکہ یکم اپریل 1904 کو تحصیل تلہ گنگ
(بشمول لاوہ دندہ شاہ بلاول) کوضلع جہلم سے کاٹ کر نئے ضلع اٹک میں شامل کر دیا گیا۔(بحوالہ جہلم ضلع کا گزٹیئر، 1904، حصہ 1، صفحہ 129، سنگِ میل پبلیکیشنز)۔دوسری مصدقہ روایت کے مطابق اولاد پیر نوری سلطان ہمدانی”حضرت سید احمد
شاہ ولد شاہ قائم بخش 1771ء کو دندہ شاہ بلاول میں پیدا ہوئے۔اور انکے بیٹے امام شریعت حضرت محمد لعل شاہ 1831ء میں پیدائش ہوئی۔اُنکی زمین ناڑہ(نزد چکی شیخ جی لاوہ)میں تھی۔اس زمین کے گرد سردارسلطان مبارز کی زمین تھی۔ملک
سلطان مبارز نے سید احمد شاہ پر دیوانی مقدمہ ”ضلعی عدالت جہلم” میں دائر کردیا۔شاہ صاحب ہر تاریخ پر پیدل دند ہ سے جہلم جاتے۔ہر دفعہ فیصلہ سید احمد شاہ کے حق ہوتا تھا۔(بحوالہ سوانح حیات ہمدانیہ مولف حضرت محمد عمر ہمدانی )۔ (اس تفصیل سے یہ باور کرانا ہے کہ لاوہ ضلع جہلم کے سا تھ منسلک رہا)۔ مغلیہ شہنشا ہ جلال الدین اکبر کی عہد کی مستند دستاویز” آئین اکبری’ فارسی متن” جسکو درباری مورخ ”علامہ ابو الفضل'(‘متوفی 1602ء ) کی تصنیف کیا۔جسکی اشاعت 1939 دار لطبع عثمانیہ حیدر آباد دکن دہلی ہوئی) ۔ آئین اکبری جلد اول کے صفحہ 1034پر قوم اعوان(اون) کا زکر ملتا ہے۔جو سر ینگر میں مقبوضہ جمہوںکشمیر یونیورسٹی کی لائبریری کے سیریل نمبر456850 میںموجود ہے۔
٭لاوہ بطور تحصیل:٭صوبائی حکومت نے15 جنوری 2013 کو ضلع چکوال کی نئی تحصیل لاوہ کا نو ٹیفکیشن کیا۔قبل ازیںلاوہ کو ضلع چکول سب تحصیل کا درجہ حاصل تھا۔(یاد رہے اس وقت ملک محمد الطاف بطور ایم پی اے اورمیاں
الطاف احمد بطور مرکز اور یونین کونسل کے چرمین نے شدیدسیاسی مخالفت کے باوجود ذاتی کاوشوں سے لاوہ کو سب تحصیل کا درجہ دلوایا تھا)۔ تحصیل کمپلیکس کی تعمیر” لاوہ تادندہ روڈ پر ،عائشہ والی بن ” شاملات دہیہ کی زمین پر 16 مئی 2018 کو پایہ تکمیل
کو پہنچا۔ تحصیل لاوہ میں اسسٹنٹ کمشنر اورنائب تحصیلدار کی عدالتی کام کے آغاز سے ہی اہل لاوہ کی آدھی مشکلات دور ہوہیں ۔مگراس تحصیل میںانتظامیہ اور عدلیہ کی کئی خالی آسامیوں خالی ہونے سے کئی مقدمات تحصیل تلہ گنگ کی عدالتوں میں زیر
سماعت ہیں۔تمام خالی اسامیوں کو پُر کرکے تمام مقدمات تحصیل لاوہ میں شفٹ کیا جائے ۔تاکہ عوام کوسفری صعبتوں اور اخراجات سے نجات مل سکے۔جب عوام تاریخ کے بعد گھر پہنچتے ہیں تو یہ شعرسناتے ہیں
پلکوں کی جھپک، پتلی کی پرت ،سرمے کی لگاوٹ ویسی ہے
تیری عیار نظر،مکار ادا،تیوری کی چڑھاوٹ ویسی ہی ہے
٭تاریخی اوارق میں چھپے حقائق سے اغماض( چشم پوشی یاپر دہ پوشی) کرنا عوامی حقوق سے معاندت (دشمنی)کے مترادف ہے۔بلکہ حالات و وقعات کا تقاضا ہے۔کہ تاریخی اوارق میں پوشیدہ مفاداتی بکٹیریا کو کریدکر”عوامی جرا ثیم
کش” رائے شماری کا چھڑکائو کرکے اپنا کھویا ہوا مقام کا حصول ممکن بنانا چائیے۔ مقام تفکر یہ ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو کب تک وڈیرہ ازم،برادری ازام اور موروثی تعذیبی شکنجوں میں جکڑ کر تہذیبی اخلاقیات کے جنازے اٹھاتے رئینگے۔جوصدیوں سے
موروثی عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہو کر ایذا رسائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔کیا یہی ہمای نئی نسل کا مقدر ہے ۔؟نہیں ہر گز نہیں۔بے شک سر نوشت تحریر ازلی ہے۔جو مقسوم صرف ”Dilly.Dally” (لیت و لعل) کرنے سے نہیں بدلتے ،بلکہ
اور نہ ہی تقدیر اسے تذبدب کا شکار کرتی ہے۔ بلکہ انسان بدت خود اپنی اولاد یا نسل کی زشت انجام(بدبختی) زشت بخت(بدنصیبی) کا مجرم بنتا ہے ۔دُینا چاند کو کمند ڈالی چکی ہے۔مگر ہم فرسودہ،مستعملہ دقیانوسی نظام اور قدیم رسموں اور روایتوںکے گرویدہ
،فریفتہ اور دلدادہ ہیں۔اور اپنی نئی نسل کے مسقبل کو دائو پر لگا کرقمار(بد نصیبی) کی بھٹی میں جھونکتے ہیں۔آئیے! اپنے حقوق اوراقتضا (خواہش)کو عملی جامہ پہنچانے کیلئے میدان عمل میں آئیں۔اور اپنے نمائندوں سے تقاضا کریںکہ تحصیل کو بنے9 سال
کا عرصہ بیت گیا۔مگر تاحال انتظامیہ،عدلیہ کی خالی آسامیاں اہلکاروں کی تعینانی کی منتظر ہیں۔حالا نکہ گورنمنٹ سول سرونٹ رولز کے مطابق تین سال یا اس زیادہ خالی رہنے والی آسامی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔کیا ان آسامیوں کو جاری رکھنے کیلئے
” کرنٹ چارج ” کا نسخہ تو نہیں آزمایا جا رہا ہے؟۔ رولز کے مطابق کرنٹ چارج بھی تین ماہ سے زیادہ نہیں دیا جا سکتا۔آخر کون سے عوامل کار فرما ہیں ،جوتحصیل لاوہ کو طویل عرصہ بعد بھی فعال ہونے کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔یا ۔جواپنی کدورت اور سفلہ پن کی بھڑاس نکالنے کیلئے عوامی جائز قانونی حقوق کو زندہ درگور کیا جا رہاہے ۔اب مزید پس و پیش سے کام لیکر عوام کو شش و پنچ میں نہ ڈالیں۔کیونکہ عوام میں اب مزید اضطرابی کیفعت برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں ۔ عوامی حقوق کی کہانی کوان الفاظ پرختم کرتا ہے ” کبھی تیری خود نمائی ،کبھی تیری پردہ داری،کبھی رکاوٹ بھری ترچھی آدائیں،کبھی لگاوٹ بھری نیچی نگائیں۔ واللہ !یہ چاروں آدائیں تمہاری خشم آلود (غضب آلودہ )ہیں۔بقول شاعر
ققتل جو تیرے دل میں رکاوٹ نہ ہو تو کیوں
رُک رُک کے مرے حقوق پہ خنجر تیرا چلتا کیوں
مگرآج عوامی سطع پرمیاں محمد بخش کے واشگاف الفاظ زبان از عام ہیں: کہ
درد لگے تاںہائے نکلے بھلا کوئی کوئی رہندا صبر کر کے
اپنے دلبردی گل سنایئے ،مخالفاں دی طرف منہ کر کے
لکھ جتن کر لے بھلامنہ زور جذبات دی دھڑکر کے
میا ں بخش اکٹر کے وچ کجھ لبھدا،جھک جا اللہ کر کے

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔