Friday, March 29, 2024

ہمدرد

دنیا کا کوئی بھی انسان ہو،وہ اپنے حالات و واقعات کی عین عکاسی ہوتا ہے!بالکل یہی قانون معاشرے پر بھی لاگو ہوتا ہے اور آپ کہہ سکتے ہیں معاشرہ ہم سے ہے ہم معاشرے سے نہیں، اس بحث سے قطع نظر کہ کچھ پہلو زیر بحث ہوں تو بات پھر وہیں آکر ٹھہر جائے گی کہ فرد معاشرے کی تکمیل کا باعث بنتا ہے، آپ چاہیں تو مسکرا سکتے ہیں مسکراہٹ چہرے کو حسین بنا دیتی ہے کبھی کبھی بلا وجہ بھی مسکرایا کریں۔ اب آتے ہیں اصل بات پر جس کی تمہید تھوڑی لمبی ہوگئی،مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ہم نے اپنے بچپن میں کوئی ایسا ڈرامہ دیکھا ہو جو فیملی کے ساتھ نا دیکھا جاسکتا ہو،اور جس میں کوئی تعمیری پہلو نا ہو!اور آج اس دور جدید میں جہاں ہر شخص ایک بٹن یا ایک لنک پریس کر کے کیا کیا نہیں دیکھ لیتا اس انٹرٹیمنٹ کے نام پر وہ وہ بیہودگی دکھائی اور سیکھائی جا رہی ہے کہ خدا کی پناہ!اب ان سو کالڈ لبرالز کی سنیں تو کہتے ہیں کہ معاشرے میں جو ہو رہا ہے ہم تو وہی دیکھا رہے ہیں۔ اب اِن سے کوئی پوچھے کہ یہ کون کہہ گیا کہ برائی اگر دیکھو تو اسے چھپا، تاکہ معاشرے کا ناسور نا بن جائے۔ اور آج ہمیں آزادی کی نام پر معاشرے کی ہر برائی سے متعارف کروا دیا گیا ہے جہاں فرد سے معاشرہ بننا تھا وہاں معاشرے سے ہر فرد تباہ حالی کی طرف بڑے ذوق و شوق سے گامزن ہے۔ کسی بھی خاندان کی بنیاد ایک شادی شدہ جوڑے سے شروع ہوتی ہے اور اسی بنیاد کو ایسے رسوا اور بے گھر کیا گیا ہے کہ ایکسڑا میریٹل افئیرز کو ہر پاک باز رشتے سے منسوب کر کے معاشرے کا چہرہ ہی بھیانک حد تک بگاڑ دیا گیا ہے۔ ان رشتوں کا نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور اس آزادی کا حاصل کیا ہوا؟ نا رشتوں کا احترام بچا نا معاشرہ! ہمیں سیکھایا اور دیکھایا جا رہا ہے کہ ہم کیسے اپنے جائز رشتوں سے مس انڈر اسٹینڈگ کے نام پر بددل ہو کر کسے ایرے غیرے کی بانہوں میں سو کالڈ ہمدردی کے نام پر جھول جاتے ہیں اور پھر نا صرف ایک رشتہ بلکے پورا خاندان بکھر جاتا ہے اور اس پر طرفہ تماشہ تو یہ کہ جسے اپنا ہمدرد سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ نجانے اور کتنی جگہ ہمدردیاں بانٹ رہا ہوتا ہے اور آپ ایک وقت گذاری کے سوا کچھ بھی نہیں