Friday, October 18, 2024
ہومپاکستاناسلام آبادہائیکورٹ: اٹارنی جنرل سے چار ہفتوں میں کریمنل جسٹس سسٹم کے حوالے سے رپورٹ طلب

اسلام آبادہائیکورٹ: اٹارنی جنرل سے چار ہفتوں میں کریمنل جسٹس سسٹم کے حوالے سے رپورٹ طلب

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل سے چار ہفتوں میں کریمنل جسٹس سسٹم کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سٹیٹ مشینری قبضوں میں ملوث ہیں، تمام ادارے کرائم میں ملوث ہیں۔ سارا ریاستی سسٹم رئیل اسٹیٹ کاروبار میں ملوث ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ وزیر اعظم نے مجھ سے پوچھا کہ تین سالوں میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ اس معاملے کو وزیراعظم کے سامنے رکھوں گا مگر وہ بیچارے تو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کریں۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس آرڈر 2002 پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ جو کہا جارہا ہے کہ دنیا 136 میں سے پاکستان کی عدلیہ 128 نمبر ہے، غلط ہے۔ اسلام آباد کے اس 14 سو سکوئر مائلز رقبے پر کیا ہوتا جارہا ہے، کون ذمہ دار ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2020 کے ان دو فیصلوں کا سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو پتہ ہے؟ سٹیٹ مشینری قبضوں میں ملوث ہیں، تمام ادارے کرائم میں ملوث ہیں۔اٹارنی جنرل صاحب عدالت کو بتائیں عدالت کیا کرے؟ سٹیٹ کو لوگوں کو تحفظ دیتی، کرائمز میں خود ملوث ہیں۔ عدالتوں کا کہتے ہیں کہ 136 نمبر پر آئے ہیں۔ قیدی کا خط آیا کہ اڈیالہ جیل سے مجرموں کو پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ سرکاری مشنری کرائم میں ملوث ہو تو عدالت کیا کرے؟ لوگ اپنے ہی بنیادی حقوق نہ ملنے سے متاثر ہورہے ہیں۔ وزارت دفاع ، ایف آئی اے، ایف بی آر اور پولیس نے اپنے ہاسنگ سوسائٹیز بنائی ہیں۔ 60, 60 سال سے لوگوں کی زمینیں لیے ہوئے ہیں مگر معاوضہ آج بھی نہیں دیا گیا۔ یہاں پر صرف ایلیٹ کلاس کو نوازا جارہا ہے، غریب کو کوئی نہیں پوچھتا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب یہاں جو بھی کھڑے ہیں ان سب کو پتہ ہے کہ قبضہ کیسے کیا جاتا ہے۔ ایک ایس ایچ او کے بغیر قبضہ ہو نہیں سکتا جبکہ تک وہ خود ملوث نہ ہو۔ اٹارنی جنرل آپ عدالت کو بتائے عدالت کیا کرے تمام سٹیٹس ادارے رئیل اسٹیٹ میں ملوث ہیں۔ سی ڈی اے نے اس شہر کا ماسٹر پلان تباہ کردیا۔ روزانہ اس عدالت نے دیکھا، فیصلے دئیے مگر ہوتا کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے غریب کے لیے ججمنٹ آتی ہیں۔ غریبوں کے کیسسز کو تو بدقسمتی سے میڈیا بھی کور نہیں کرتا۔ کرمنل جسٹس سسٹم بڑے لوگوں کے لیے ہیں، غریب کے لیے نہیں۔ یہ کیس کب سے چل رہا ہے، ہر آفیشل آکر انکو لگتا ہے کہ بس یہ آئی واش ہے۔ اسلام آباد پولیس کے جتنے بھی تفتیشی یہاں حاضر ہوتے ہیں ان کو تفتیش کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ادارے کام نہیں کرتے اور بدنام آئینی عدالتیں ہوتیں ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس ملک میں سسٹم عام عوام کے خلاف کام کررہا ہے۔ اس کیس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی کو طلب کیا تھا مگر پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔ وزارت داخلہ کی ہاسنگ سوسائٹی ہے اور حاضر سروس افسر اسے ڈیل کرتا ہے۔ ایف آئی اے کی اپنی ہاوسنگ سوسائٹی ہے اور ڈی جی صدر ہوتا ہے۔ اسلام آباد کا ڈپٹی کمشنر بے بس ہے، کیونکہ وزارت داخلہ بھی رئیل اسٹیٹ کاروبار میں ملوث ہے۔ اسلام آباد میں سسٹم کی وجہ سے قبضہ مافیا کو تحفظ حاصل ہے۔ عدالت کے فیصلوں کو افسران اپنے دراز میں رکھتے ہیں کیوں وہ غریب کے لیے ہوتے ہیں۔ تین سالوں سے یہ عدالت درخواست پر درخواست کرتی جارہی ہے۔ عدالت نے جو بھی الفاظ کہیں وہ سچ ہے کیوں کہ یہی حقیقت ہے۔ اس عدالت نے وفاقی کابینہ کو یہ معاملہ بھیجامگر کچھ نہیں ہوا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ بتایا گیا کہ پولیس ایکٹ 2021 پر کام کیا جارہا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہاں پر سارا سٹیٹ سسٹم رئیل اسٹیٹ کاروبار میں ملوث ہیں پہلے ان کو تو روکیں۔ موٹر وے سے زرا اندر آئے تو بہت بڑا بورڈ لگا ہوا ہے سپریم کورٹ ہاسنگ سوسائٹی۔ سپریم کورٹ، وزارت داخلہ اور پولیس کا نام سوسائٹیز کے لیے کیوں استعمال کیا جارہا ہے؟ سارے افسران یہاں ہیں، دیکھتے ہیں کہ یہاں سے باہر جاکر کیا کرتے ہیں۔ کیا یہاں موجود تمام افسران باہر جاکر کوئی بدلا لاتے ہیں یا نہیں۔ سی ڈی اے وزارت داخلہ کے انڈر ہے تو کیا سی ڈی اے ان سے پوچھ سکتی ہے کہ اپنا پلان اپرو کرے؟ ڈپٹی کمشنر نے موقف اپنایا کہ وزارت داخلہ کی ہاوسنگ سوسائٹی کا وزارت داخلہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کتابی باتیں نہ کریں۔ بتائیں آئی بی کی سوسائٹی کی کیا ہسٹری ہے، کیا وہ قبضہ میں ملوث نہیں؟ سیکرٹری داخلہ بتا سکتے ہیں کہ ایف آئی اے اور آئی بی کے حاضر سروس افسران کیسے بزنس کرسکتے ہیں؟ عدالت نے اٹارنی جنرل کو اس معاملے کو وزیراعظم کے سامنے اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوتا، یہاں پر نیت بھی ہونی چاہیے۔ یہاں پر صرف ایلیٹ کے لیے سسٹم ویل رکھتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ذرا سا کسی طاقتور آدمی پر ہاتھ ڈالیں تو ادارے ہلائے جاتے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جن اداروں کے انٹرسٹ ہیں کیا وہ سٹیٹ کے اندر سٹیٹ ہے؟ ایک کیس آیا تھا جس پر ڈی سی نے کام کیا اور پتہ چلا کہ ایف آئی اے کے فرنٹ مین بھی ہوتے ہیں۔ آپ سیکرٹری صاحب سے ویسے ہی پوچھ لیں گے تو آپ کو یہی کہیں گے سب اچھا ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ شوگر مافیا کو چیلنج کیا تو انہوں نے کہا ہم آپ کو گھٹنوں پر لائیں گے۔ پیٹرول مافیا اور چکن مافیا پر ہاتھ ڈالا تو یہی ردعمل سامنے آیا، یہ سول سرونٹس بچارے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جس کام کے لیے جو اپوائنٹ ہوا ہے اور وہ کام نہیں کرسکتا تو گھر چلا جائے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے موقف اپنایا کہ مجھے نوکری کی تلاش نہیں، میں بڑا مضبوط اٹارنی جنرل ہوں۔ میں روزانہ وزیراعظم سے ملتا ہوں مگر پھر بھی دو سالوں سے لگتا ہے کہ کچھ نہیں کیا۔ ڈپٹی کمشنر نے جو بات کی بالکل غلط بات ہے ، نہیں کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں، یہاں روزانہ کیسسز آتے ہیں۔ اگر آئی جی یا ایس ایچ او چاہے تو کوئی ان کے دائرہ اختیار سے کسی کو نہیں اٹھا سکتا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ میری تو خواہش ہے کہ 1979 کے فرانس میں ہوتا، انقلاب آتا اور سب بہا لے جاتا۔ میں اپنے آپ کو بہت ہیلپ لیس محسوس کررہا ہوں، اور لگتا ہے کہ وقت ضائع کررہا ہوں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس کیس کو وفاقی کابینہ کے سامنے اٹھائیں جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ وفاقی کابینہ میں بہت علما بیٹھے ہوتے ہیں، میں اس معاملے کو وزیراعظم کے سامنے اٹھاں گا۔ وزیر اعظم نے مجھ سے پوچھا کہ تین سالوں میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ اس معاملے کو وزیراعظم کے سامنے رکھوں گا مگر وہ بیچارے تو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کریں۔ متعلقہ وزارتوں سے ملکر ہی میں کچھ تجاویز یا حل بتا سکتا ہوں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ لا ریفارمز چھوڑیں، دفتروں میں جو کچھ ہو رہا ہے مگر گرانڈ پر کچھ بھی نہیں ہورہا۔ کتابی یا سیمینار والا نہیں، اور نہ ہی کوئی زبانی بتائے کہ یہ کردیا وہ کردیا۔ اٹارنی جنرل صاحب آپ کے زہر نگرانی کمیشن بناتا ہوں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت میں سب سے پریشان آدمی میں ہوں، کمیشن نہ بنائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریاست لینڈ مافیا بن چکی ہے۔ وفاق حکومت کے پاس 1400 سکوئر مائلز کا رقبہ ہے اور اگر حکومت چار ہفتوں یہ ٹھیک نہیں کرسکتی تو پھر کیا کرسکتے ہیں۔ چار ہفتے بعد دیکھتے ہیں کہ یہ افسران کیا کرتے ہیں۔ یہاں پراسیکوشن نہیں بنا، 40 سال بعد کسی کو یاد آیا کہ ڈسٹرکٹس کورٹس کو شفٹ کریں۔ یہاں پر پراسیکوشن سیکرٹری ہونا چاہیے، کیوں کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں پراسیکوشن کا سب سے اہم کام ہوتا ہے۔ یہاں اسٹیٹ کونسلز بغیر تنخواہ کے کام کررہے ہوتے ہیں۔ آئی جی اور سیکرٹری داخلہ بڑے خوش ہونگے کہ 136 میں 130 نمبر پر عدالتیں ہیں۔ عدالت نے کریمنل جسٹس سسٹم کے حوالے سے اٹارنی جنرل سے چار ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ چار ہفتوں بعد کریمنل جسٹس سسٹم میں کوئی کلاز نہ رہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے چار ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 28 جنوری تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔