Monday, July 7, 2025
ہومبریکنگ نیوزآئینی لغزش: آزاد پھر سے آزاد ہو گئے پی ٹی آئی کی آئینی غلط فہمی اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت کی بھاری قیمت

آئینی لغزش: آزاد پھر سے آزاد ہو گئے پی ٹی آئی کی آئینی غلط فہمی اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت کی بھاری قیمت


تحریر: حافظ احسان احمد کھوکھر، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں 8 فروری 2024 کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والا آئینی و قانونی بحران، ملک کے جمہوری ارتقا کا ایک نازک اور فیصلہ کن موڑ بن چکا ہے۔ اس بحران کا مرکزی نکتہ خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کا وہ آئینی تنازعہ تھا جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل (SIC) میں شمولیت اختیار کر کے ان مخصوص نشستوں پر اپنا حق جتانے کی کوشش کی۔

لیکن اس آئینی غلط فہمی اور سیاسی چالاکی کا انجام بالآخر سپریم کورٹ کے مورخہ 27 جون 2025 کے اکثریتی فیصلے کی صورت میں سامنے آ چکا ہے، جس میں واضح اور دوٹوک انداز میں قرار دیا گیا کہ سنی اتحاد کونسل آئینی طور پر ان نشستوں کی اہل جماعت ہی نہ تھی۔ یہ فیصلہ نہ صرف آئینی تشریح کی شفافیت کا مظہر ہے بلکہ 12 جولائی 2024 کے متنازع عدالتی فیصلے کی درستی بھی کرتا ہے، جو عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کا باعث بنا تھا۔


حصہ اول: مخصوص نشستوں کے متعلق آئینی اور قانونی خاکہ

پاکستان کا آئین خواتین اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستوں کے بارے میں ایک باقاعدہ، منظم اور کڑی آئینی ترتیب فراہم کرتا ہے۔

آرٹیکل 51(6)(d) اور آرٹیکل 106(3)(c) کی روشنی میں مخصوص نشستیں صرف ان سیاسی جماعتوں کو دی جا سکتی ہیں جو عام نشستوں پر کامیابی حاصل کریں اور اسمبلی میں مثر نمائندگی رکھتی ہوں۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 کے تحت، کوئی بھی آزاد امیدوار انتخابات میں کامیابی کے بعد، تین دن کے اندر اندر کسی باقاعدہ سیاسی جماعت میں شمولیت کا اعلان کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ جماعت متعلقہ اسمبلی میں پہلے سے موجود ہو۔

مزید یہ کہ سیکشن 57، 58 اور الیکشن رولز 2017 کے رول 94 کے تحت ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ انتخابات سے قبل ہی مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ جماعت بعد ازاں ان نشستوں کی دعویدار نہیں بن سکتی۔

یہ تمام آئینی و قانونی شرائط اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ کوئی بھی جماعت جو انتخابات میں حصہ نہ لے، جس کے کوئی امیدوار کامیاب نہ ہوں، اور جو مخصوص نشستوں کے لیے قبل از وقت فہرست جمع نہ کروائے، وہ ان نشستوں پر کسی بھی قسم کا دعوی نہیں کر سکتی۔

سنی اتحاد کونسل نے نہ تو الیکشن لڑا، نہ ہی کوئی فہرست دی، اور نہ ہی اس کا کوئی رکن کسی اسمبلی میں منتخب ہوا۔ لہذا آئین اور قانون دونوں کے تحت یہ جماعت مخصوص نشستوں کی مکمل طور پر نااہل تھی۔


حصہ دوم: پی ٹی آئی کی آئینی و قانونی حکمت عملی میں سنگین غلطی

پی ٹی آئی کی طرف سے آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کروانے کی حکمت عملی نہ صرف آئین سے متصادم تھی بلکہ ایک غیر آئینی اور غیر قانونی راستے پر چلنے کی دانستہ کوشش تھی۔ پارٹی کی اعلی قیادت نے ایک ایسی جماعت کو اپنا سیاسی و قانونی ہتھیار بنانے کی کوشش کی جو آئینی لحاظ سے سرے سے وجود ہی نہ رکھتی تھی۔

حالانکہ اس وقت پی ٹی آئی کے پاس دو آئینی و قانونی راستے موجود تھے:

  1. آزاد امیدوار تین دن کی مدت میں پی ٹی آئی سے وابستگی کا اعلان کرتے؛
  2. یا وہ آزاد حیثیت میں اسمبلیوں میں ایک آزاد گروپ کی شکل میں بیٹھتے، جس سے نہ صرف ان کی خودمختاری برقرار رہتی بلکہ پی ٹی آئی کو بالواسطہ سیاسی فائدہ بھی حاصل رہتا۔

مگر پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل کی غیر آئینی حمایت کے مقف پر اصرار کیا، اور اس بات کو نہ تو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا، نہ ہی سپریم کورٹ میں کوئی استدعا کی کہ SIC میں شمولیت کو کالعدم قرار دے کر ان امیدواروں کو آزاد یا پارٹی سے منسلک قرار دیا جائے۔

یہی مستقل ضد بالآخر ایک بڑے آئینی اور سیاسی نقصان کا باعث بنی، جس کی اصلاح اب ممکن نہیں رہی۔


حصہ سوم: 12 جولائی 2024 کا فیصلہ عدالتی فعال از خود اختیارات یا آئینی تجاوز؟

سپریم کورٹ کا فیصلہ مورخہ 12 جولائی 2024 ایک ایسا فیصلہ تھا جس میں عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 17(2) اور 187 کی تشریح کے ذریعے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کا اہل قرار دینے کی کوشش کی، حالانکہ:

یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کو مکمل طور پر نظر انداز کر گیا،

الیکشن ایکٹ کے اہم سیکشنز (57، 58، 104) اور رول 94 پر عمل درآمد نہ کیا،

اور آئین کے آرٹیکل 175(2) کی صریح خلاف ورزی کی، جو عدلیہ کو آئین کی ازسرنو تشکیل یا توسیع سے روکتا ہے۔

سپریم کورٹ ماضی میں بارہا کہہ چکی ہے کہ عدلیہ کا دائرہ صرف آئینی تشریح تک محدود ہے۔ قانون سازی، انتخابی انجینئرنگ یا سیاسی ڈھانچے کی تشکیل عدلیہ کی ذمہ داری نہیں۔

“سندھ ہائی کورٹ بار بنام وفاق” اور “ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی کیس” جیسے فیصلے اس اصول کو مضبوطی سے قائم کرتے ہیں کہ کوئی عدالتی فورم واضح آئینی دفعات کی جگہ متبادل راہ اختیار نہیں کر سکتا۔


حصہ چہارم: 27 جون 2025 کا فیصلہ آئینی نظم و ضبط کا احیا

سپریم کورٹ کے 10 کے مقابلے میں 3 ججوں پر مشتمل اکثریتی بینچ نے 27 جون 2025 کو اپنے تاریخی فیصلے میں آئینی شفافیت بحال کی اور درج ذیل نکات پر دو ٹوک مقف اختیار کیا:

  1. سنی اتحاد کونسل چونکہ انتخابات میں شریک ہی نہ ہوئی تھی، اور اس نے آئینی شرائط بھی پوری نہ کی تھیں، لہذا وہ مخصوص نشستوں کی اہل جماعت نہیں تھی؛
  2. آزاد امیدواروں کی SIC میں شمولیت قانونی طور پر بے اثر اور غیر مثر ہے؛
  3. ان تمام ارکان کو آئینی طور پر آزاد تصور کیا جائے گا، اور وہ کسی بھی جماعتی ضابطے یا آرٹیکل 63A کی گرفت میں نہیں آئیں گے۔

یہ فیصلہ عدلیہ کے کردار کو آئینی دائرے میں رکھتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی تابع ہے، نہ کہ اس کی خالق۔


حصہ پنجم: پی ٹی آئی کے لیے سنگین قانونی و سیاسی نتائج

پی ٹی آئی کی سنی اتحاد کونسل کے ساتھ حکمت عملی نہ صرف غیر قانونی ثابت ہوئی بلکہ اس کے نتیجے میں پارٹی کو جو دھچکا پہنچا، وہ آئندہ سیاسی منظرنامے پر دیرپا اثرات چھوڑ سکتا ہے:

  1. قومی و صوبائی اسمبلیوں میں تمام مخصوص نشستوں کا مکمل نقصان؛
  2. آزاد ارکان پر آرٹیکل 63A لاگو نہیں ہوتا، لہذا وہ پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیںچاہے وہ اعتماد کا ووٹ ہو، بجٹ ہو یا آئینی ترمیم؛
  3. خیبر پختونخوا میں حکومت کی پوزیشن غیر محفوظ ہو چکی ہے، کیونکہ یہ ارکان اب مکمل طور پر آزاد ہیں؛
  4. حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو چکی ہے، جس سے وہ ہر قسم کی آئینی ترمیم کے قابل ہو گئے ہیں۔

یہ سب کچھ روکا جا سکتا تھا، اگر پی ٹی آئی وقت پر قانونی مشورے لیتی، SIC میں شمولیت کو چیلنج کرتی، یا اپنے آزاد امیدواروں کو آئینی طریقے سے پارٹی کا حصہ بناتی۔ مگر افسوس کہ پارٹی نے آئینی بصیرت کے بجائے ضد اور جذبات پر مبنی راستہ چنا۔


نتیجہ: آئینی غلط فہمی اور سیاسی قیمت ایک تاریخی سبق

یہ مکمل معاملہ آزاد امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت، اور اس کے گرد گھومنے والے قانونی و عدالتی مراحل، ایک عظیم آئینی سبق ہیں۔ آئین پاکستان ایک زندہ دستاویز ہے، مگر اس کے ساتھ کھلواڑ، غلط تشریحات، یا سیاسی مفاد پر مبنی فیصلے نہ صرف نظام کو کمزور کرتے ہیں بلکہ جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے 27 جون 2025 کے فیصلے میں ایک غیر مبہم آئینی لائن کھینچ دی ہیجس کے دونوں اطراف آئین کی بالادستی اور سیاسی مصلحتوں کی نفی واضح دکھائی دیتی ہے۔

پی ٹی آئی کے لیے یہ ایک تلخ مگر سبق آموز حقیقت ہے: آئینی شقوں کی غلط فہمی، ایک غیر اہل سیاسی جماعت کے ساتھ نااہل اتحاد، اور وقت پر درست قانونی مقف نہ اپنانا، کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

اب مستقبل کی سیاست کو وقتی فائدے یا قانونی سقم سے فائدہ اٹھانے کے بجائے آئینی تقاضوں کی مکمل پاسداری، عدالتی تشریحات کے احترام، اور جمہوری نظم و ضبط کی پیروی پر استوار ہونا چاہیے۔ یہی پاکستان کی جمہوریت کے استحکام کی واحد راہ ہے۔


حافظ احسان احمد کھوکھر، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان، ایک ممتاز آئینی، بین الاقوامی اور پارلیمانی قانون دان ہیں۔ آپ کو 25 سال سے زائد قانونی تجربہ حاصل ہے۔
رابطہ:93008487162

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔