Saturday, June 28, 2025
spot_img
ہومکالم وبلاگزسوات کے بہتے پانیوں میں آنسوؤں کی رم جھم

سوات کے بہتے پانیوں میں آنسوؤں کی رم جھم

تحریر: محمد محسن اقبال


کچھ واقعات دل کو اس قدر گہرائی سے چھو جاتے ہیں کہ ان کی بازگشت سیلابی پانیوں کے اترنے، چیخ و پکار کے تھمنے اور گرد بیٹھ جانے کے بعد بھی دل و دماغ پر نقش رہتی ہے۔ یہ صرف لمحے نہیں ہوتے، یہ ہمارے اجتماعی شعور پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں — اگر واقعی ہمارا شعور باقی رہ گیا ہے۔ ایسی ہی ایک المناک داستان حالیہ دنوں سوات میں پیش آئی، جہاں خوشی کے لمحے پل بھر میں سوگ میں بدل گئے اور سیر و تفریح کا خواب ایک ناقابل واپسی المیے میں ڈھل گیا۔


اس جمعہ کی دوپہر آسمان ایک ایسے سانحے کا گواہ بنا جسے کوئی دل برداشت نہیں کر سکتا۔ سوات کے نیلگوں اور پُرسکون آسمان، جو ہمیشہ سکون اور حسن کی علامت سمجھے جاتے تھے، اچانک بے بسی سے اس ہولناک منظر کو دیکھتے رہے جب ایک بے رحم پانی کا ریلا وادی میں اُمڈ آیا اور پلک جھپکتے میں قیمتی انسانی جانوں کو نگل گیا۔ بچوں کی ہنسی چیخ و پکار میں بدل گئی، دوستوں کی خوش گپیاں مدد کی دہائیاں بن گئیں، اور قدرت کا سکون ایک المناک تباہی کے منظر میں تبدیل ہو گیا۔


ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے 35 سیاحوں کا ایک گروپ فطرت کی گود میں سکون تلاش کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا تھا۔ یہ خاندان تھے، دوست، بہنیں اور بھائی—زندگی کی تھکن سے کچھ لمحوں کا فرار چاہنے والے عام لوگ۔ مگر ان میں سے تقریباً 16 افراد واپس نہ آ سکے۔ شمالی گلیشیئرز سے جڑی سوات کی خوبصورت دریا ان کے لیے ایک بے نشان قبر بن گئی۔ ان قیمتی جانوں کے آخری لمحے وہاں موجود افراد کے کیمروں میں قید ہوئے—خوف اور بے بسی کی وہ ہولناک جھلکیاں سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچیں۔ مگر ان واضح مناظر کے باوجود جو چیز نظر نہ آئی، وہ وہ چہرے تھے جو سب سے پہلے وہاں موجود ہونے چاہیئے تھے—ریسکیو اہلکار، متعلقہ افسران، اور وہ نظام جو عموما تاخیر کا شکار رہتا ہے۔


عینی شاہدوں کے مطابق متاثرہ خاندان گھنٹوں تک مدد کے لیے پکارتے رہے۔ مایوسی سے بھری ہوئی آوازیں لرزتی رہیں، بھیگے ہاتھوں میں تھامے گئے فون کانپتے رہے، ہر سانس کے ساتھ دعائیں لبوں پر آتی رہیں—مگر کوئی نہ آیا۔ یہ تاخیر جان لیوا ثابت ہوئی۔ یہ صرف انتظامی ناکامی نہ تھی، بلکہ ذمہ داری سے غداری تھی، تکلیف کے منظر میں ایک سفاک خاموشی۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ دلوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے، مگر ہمیں یہ بھی کہنا چاہیے—کہ ان لوگوں کے دلوں پر کیا گزری، یہ بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے، جب وہ پانی میں بہتے ہوئے آخری بار کنارے کی طرف دیکھ رہے تھے، اس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی، کہیں سے، مدد کو آ جائے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ایسی بے بسی کو تاریخ نے قلم بند کیا ہو۔ یہ بھی پہلا موقع نہیں کہ ہمارا نظام بروقت حرکت میں آنے میں ناکام رہا ہو۔ جہاں فوری عمل ہونا چاہیے تھا، وہاں ہمدردی سے کام لیا گیا؛ جہاں جوابدہی ہونی چاہیے تھی، وہاں افسوس کے بیانات دے دیے گئے؛ اور جہاں اصلاحات کی ضرورت تھی، وہاں مالی امداد کو اس زخم پر مرہم سمجھ لیا گیا جو کبھی نہیں بھر سکتا۔ کیا یہ سانحہ بھی ان حادثات میں شامل ہو جائے گا جو وقت کے دھندلکوں میں گم ہو جاتے ہیں؟ ہو سکتا ہے چند افسر معطل کر دیے جائیں، مالی امداد کا اعلان کر دیا جائے، اور نہایت احتیاط سے لکھے گئے افسوس کے بیانات جاری ہو جائیں—لیکن کیا یہ سب کچھ دریا میں ڈوب جانے والی ان قیمتی جانوں کو واپس لا سکتا ہے؟


اصل سانحہ صرف ڈوب جانا نہیں، بلکہ وہ بے حسی ہے جو اس کے بعد دکھائی دیتی ہے۔ کیا اس سے پہلے ایسے واقعات پیش نہیں آئے؟ کیا ہم نے سیلابی ریلوں میں سیاحوں کو بہنے، خاندانوں کو دریاؤں میں ڈوبتے، اور سڑکوں کو پانی میں بہتے نہیں دیکھا؟ پھر ہم نے کیا سیکھا؟ ہم نے کیا درست کیا؟ یا ہم نے ہمیشہ کی طرح اسے تقدیر کا لکھا کہہ کر شانے اچکا دیے، جیسے انسانی جان اتنی سستی ہو کہ صرف یہ کہہ کر اس کا حساب ختم کر دیا جائے کہ ”یہ تو قسمت میں تھا”؟


ہمارے ردعمل میں ایک ظالمانہ تکرار ہے۔ ہم سوگ منائیں گے، جی ہاں۔ ہم مرحومین کی تصاویر دل شکستہ کیپشنز کے ساتھ شیئر کریں گے۔ ہم اجلاس بلائیں گے، رپورٹس تیار کریں گے، اور کانفرنسوں میں سنجیدگی سے سر ہلائیں گے۔ پھر ہم آگے بڑھ جائیں گے۔ اور وہ لواحقین؟ وہ عمر بھر ایک ایسے خلا کے ساتھ جئیں گے جسے کوئی وقت، کوئی لفظ، کوئی ہمدردی پُر نہیں کر سکتی۔ وہ صرف اپنے پیاروں کو دفن نہیں کریں گے، بلکہ اپنے وجود کا ایک حصہ بھی مٹی کے حوالے کر دیں گے۔ ایک ماں کے اس درد کا کوئی ازالہ نہیں جو ہنستے ہوئے بیٹے کی واپسی کی منتظر تھی اور جس کے ہاتھ میں اُس کا بے جان جسم آیا؛ اُس باپ کے دکھ کا کوئی مداوا نہیں جو بچوں کو احتیاط کا مشورہ دے کر رخصت کرتا رہا، یہ جانے بغیر کہ وہ مسکراہٹیں اُن کی آخری ہوں گی۔ مگر اس سانحہ نے تو سارے خاندان کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔


دوسری قوموں میں اگر ایک بچہ بھی گم ہو جائے یا کوئی جانور مشکل میں ہو، تو پورا نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، ہنگامی الرٹس جاری کیے جاتے ہیں، اور ہیلی کاپٹرز فضا میں بھیجے جاتے ہیں۔ یہاں درجنوں لوگ ڈوب جاتے ہیں، اور ریاستی مشینری تب جاگتی ہے جب سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پہلا مددگار بن جاتا ہے، اور انتظامیہ بے حسی کی عینک لگا کر محض تماشائی بنی رہتی ہے۔
اگر ہم مستقبل میں ایسے دل دہلا دینے والے سانحات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ردِعمل کے طور پر سوگ منانے کی رسم ترک کرنی ہوگی اور پیشگی منصوبہ بندی کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں ایک جامع قومی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں بروقت وارننگ سسٹمز، دریا کے کناروں کی نگرانی، ایمرجنسی مشقیں، اور سیاحوں کے لیے تیار کردہ عوامی آگاہی مہمات شامل ہوں۔ سیٹلائٹ ڈیٹا اور فوری مواصلاتی نظام کے اس دور میں پانی کی سطح کی نگرانی اور ممکنہ طغیانی کی پیشگوئی کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن ایسے تمام آلات اور نظام تب تک بے سود ہیں جب تک اُن کے ساتھ عمل کا حقیقی ارادہ اور عزم نہ ہو۔
سوات کا دریا بہتا رہے گا، اس آنسوؤں سے بے نیاز جو اس نے بہنے دیے۔ سیاح ایک بار پھر اس کی خوبصورتی سے کھنچے چلے آئیں گے، بے خبر اس تاریخ سے جو اس کے پانیوں کے نیچے دفن ہے۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا تو ایک دن پھر کسی معصوم گروہ کا وہی انجام ہوگا، اور ہم ایک بار پھر خاموش، تاخیر سے پہنچنے والے، اور بہانوں سے بھرے تماشائی بنے رہیں گے۔


آئیے خود کو شاعرانہ تقدیر پسندی کے دھوکے میں نہ رکھیں۔ آئیے اپنی ناکامیوں پر کھوکھلی دعاؤں اور دکھاوے کی ہمدردیوں کا پردہ نہ ڈالیں۔ سوات میں مرنے والے لوگ محض اعداد و شمار نہیں تھے۔ وہ زندہ انسان تھے—محبتوں، کہانیوں، خوابوں سے بھرپور زندگیاں—جنہیں صرف پانی نے نہیں، ہماری غفلت نے بھی چھین لیا۔
اور اگر ہم اس سانحے کے بعد بھی نہ بدلے، تو شاید اصل سیلاب ہمارے دریاؤں میں نہیں، بلکہ ہمارے دلوں میں ہے—جو ہماری ذمہ داری، ہمدردی اور انسانیت کو بہا لے جا رہا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔