تحریر: محمد محسن اقبال
جنگ دراصل انسانیت کی ناکامی کا اندوہناک اظہار ہے—مکالمے سے اختلافات حل نہ کر سکنا، حدود و قیود کا احترام نہ کرنا، اور انصاف کے اصولوں کو پامال کرنا۔ جنگ معصوموں پر ہولناکیاں مسلط کرتی ہے اور تہذیبوں کو بے گناہوں کے خون سے داغدار کر دیتی ہے۔ مگر تاریخ میں کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب جنگ کی لپکتی ہوئی چنگاریاں—اگرچہ ناقابلِ قبول—ایسی سچائیوں کو عیاں کر دیتی ہیں جو تکبر، دھوکے اور جارحیت کے پردوں میں مدتوں چھپی ہوتی ہیں۔ رواں سال مئی اور جون کے مہینے ایسے ہی لمحوں کے گواہ بنے—جب جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی مظلوم سرزمینوں نے اپنے ظالموں کے چہرے سے نقاب ہٹتے دیکھے، اور دنیا برسوں سے رائج مفروضوں کے الٹ پھیر پر حیران رہ گئی۔
برسوں سے بھارت نے خود کو جنوبی ایشیا کا دیو قرار دے رکھا ہے—بین الاقوامی حمایتوں اور عسکری غرور کے سہارے۔ اس نے اپنی طاقت سے ہمسایہ ممالک، خصوصاً پاکستان، کو دبانے، سفارتی کشمکش، خفیہ انتشار، اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن 7 مئی کو، اللہ تعالیٰ کے فضل سے، پاکستان نے ایک ایسی سرعت اور حکمت سے جواب دیا جس نے بھارت کے تکبر پر مبنی خودساختہ تصورِ عظمت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ وہ ایک دن صرف عسکری حکمتِ عملی نہیں تھا، بلکہ ایک اخلاقی تادیب، اسٹریٹیجک شہ مات، اور قدرت کی جانب سے انصاف کا ترازو برابر کرنے کا مظہر تھا۔
بھارتی قیادت شاید خوداعتمادی کے نشے میں حد سے زیادہ بہک چکی تھی۔ برسوں کی جھوٹی عظمت، طاقت کے دعوے اور ناقابلِ تسخیر ہونے کا گمان ان کی سوچ پر پردہ ڈال چکا تھا۔ مگر پاکستان کا فیصلہ—جو صرف عسکری قوت نہیں بلکہ انصاف اور ایمان کی بنیاد پر تھا—نے ایک ایسا ضرب لگایا جس نے دنیا کو یاد دلایا کہ تکبر کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اس دن کے بعد سرحد پار ایک غیرمعمولی خاموشی چھائی ہوئی ہے، جو کسی پرامن غور و فکر کا نہیں، بلکہ ایک ششدر ازسرنو جائزے کا اظہار ہے۔ مگر تاریخ جاننے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ پرانی عادتیں آسانی سے نہیں جاتیں۔ بھارت وقتی طور پر رک تو سکتا ہے، مگر اشتعال انگیزی کا سلسلہ غالباً جاری رہے گا۔ پھر بھی 7 مئی ایک یادگار دن بن گیا—جب تیاری، سچائی اور خدائی نصرت ایک مقام پر جمع ہوئیں۔
اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں بھی حیرت انگیز واقعات دیکھنے کو ملے۔ برسوں سے اسرائیل بغیر کسی روک ٹوک کے ظلم کرتا چلا آ رہا تھا—طاقتور حامیوں اور بین الاقوامی دوغلے معیارات کے سائے میں۔ غزہ اور فلسطینی علاقوں میں اس کے مظالم وحشیانہ، غیر متوازن اور انسانیت کی ہر حد کو پامال کرنے والے تھے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح، اسے کوئی مساوی جواب نہیں ملا۔ مگر یہ توازن اُس وقت بدلا جب ایران—جو طویل عرصے سے تنقید، تنہائی، اور اقتصادی دباؤ کا شکار رہا—نے ایسا جوابی وار کیا کہ اس کے ناقدین بھی حیرت میں ڈوب گئے۔
ایران نے، اللہ کے فضل سے، حکمت اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی دفاع کی پرتیں چیر ڈالیں اور تل ابیب سمیت کئی شہروں تک جنگ کو پہنچا دیا—اسی زمین پر، جہاں سے مظالم کی داستانیں برسوں سے اٹھتی رہی تھیں۔ دنیا جو غزہ کی تباہ شدہ تصاویر دیکھنے کی عادی تھی، اب اسرائیل کے اندر سے وہی مناظر دیکھ رہی تھی—ایسے مناظر جنہیں ماضی میں صرف مقبوضہ فلسطین سے منسوب کیا جاتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جارح اور مظلوم کا فرق خود اسرائیلی زمین پر دھندلا گیا۔
یہ فقط جوابی حملہ نہیں تھا، بلکہ ایک تاریخی فیصلہ کن لمحہ تھا۔ ایران نے، اللہ کی مدد سے، نہ صرف اپنے بیرونی دشمنوں بلکہ اندرونی رکاوٹوں اور علاقائی چیلنجز پر قابو پا کر ایسا جواب دیا جو مستقبل میں عسکری حکمتِ عملی کا نمونہ بنے گا۔ ایران نے ثابت کر دیا کہ کوئی ملک خواہ کتنا ہی تنہا کیوں نہ ہو، اگر وہ ایمان سے جڑا ہو اور انصاف کے لیے کھڑا ہو، تو وہ عالمی قوانین کے اصول از سرِ نو لکھ سکتا ہے۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہ جنگ کی تعریف نہیں۔ کوئی باشعور شخص خونریزی پر خوش نہیں ہوتا۔ جان کا زیاں—کسی بھی طرف ہو—افسوسناک ہے۔ مگر ان لمحوں کی قدر کرنی چاہیے جہاں دیرینہ ظلم کے خلاف انصاف نے زبان پائی۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ طاقت، جب زیادتی میں استعمال ہو، تو اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ کوئی ریاست—چاہے کتنی ہی عسکری یا سفارتی طور پر محفوظ کیوں نہ ہو—ہمیشہ نتائج سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
پاکستان اور ایران، اپنے اپنے میدانِ عمل میں، جارح نہیں بلکہ محافظ بن کر سامنے آئے—اپنی عوام، اپنی حرمت، اور امن سے جینے کے حق کے محافظ۔ ان کے اقدامات نفرت سے نہیں، بلکہ مجبوری سے اٹھائے گئے۔ اور یوں انھوں نے ایک ایسی دنیا میں توازن بحال کیا جو بہت عرصے سے ظلم کے پلڑے میں جھکی ہوئی تھی۔
مئی اور جون کی یہ تاریخیں یاد رکھی جائیں گی—اس لیے نہیں کہ انھوں نے دکھ دیا، بلکہ اس لیے کہ انھوں نے سچ واضح کیا۔ انھوں نے ہمیں یاد دلایا کہ ایمان ابھی باقی ہے، انصاف ابھی زندہ ہے، اور خدائی نصرت جب حرکت میں آتی ہے تو جمے جمائے ظلم کے قلعے بھی گر سکتے ہیں۔ آنے والی نسلیں ان دنوں کو صرف جھڑپوں کے نہیں، بلکہ بیداری کے لمحوں کے طور پر یاد کریں گی—جب مظلوم نے صدا دی، اور ظالم کو سننا پڑا۔
اللہ تعالیٰ معصوموں کی حفاظت فرمائے، ظالموں کو سچ کی طرف ہدایت دے، اور تمام اقوام کو باعزت امن عطا کرے۔ کیونکہ اصل فتح دوسروں کو مٹانے میں نہیں، بلکہ انصاف قائم رکھنے اور باوقار زندگی گزارنے میں ہے۔ اور جب انصاف فتح پاتا ہے حتی کہ اگر وہ آگ کے راستے سے گزرے—تو وہ راکھ نہیں، بلکہ روشنی چھوڑ جاتا ہے۔