Friday, November 8, 2024
ہومبریکنگ نیوزسپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے بدھ کے روز کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری ، فیصلہ سب نیوز پر

سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے بدھ کے روز کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری ، فیصلہ سب نیوز پر


اسلام آباد(سب نیوز)آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی گذشتہ روز کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا گیا ۔
جاری حکمنامے کےمطابق نظرثانی کی درخواست 3 روز زائد المیعاد ہے،
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ نائیک نے زائد المیعاد ہونے کی مخالفت نہیں کی،
علی ظفر کی جانب سے نظرثانی درخواست زائد المیعاد ہونے پر اس کی مخالفت کی گئی،
یہ واضح ہے کہ فیصلہ کی وجوہات کے بغیر نظرثانی نہیں مانگی جا سکتی،
تفصیلی فیصلہ جاری ہونے پر ہی غلطی کی وجوہات سامنے آ سکتی ہیں،63 اے کی نظرثانی تین ماہ اور 21 دن تفصیلی فیصلہ جاری ہونے سے پہلے دائر کی گئی،
بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو متعدد متفرق درخواستوں پر دلائل کی اجازت دی گئی ،
علی ظفر نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت مانگی،
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ملاقات کے لیے عدالتی ہدایات جاری کی گئیں،
سپریم کورٹ بار کی درخواست پر 19 مارچ کو سیاسی جماعتوں اور متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کیے گئے،
جاری حکمنامے کےمطابق عدالتی آرڈر کے بعد صدر عارف علوی نے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا،
صدارتی ریفرنس اور 184 کی درخواستیں یکجا کر کے سنی گئیں،سابق چیف جسٹس نے 24 مارچ کو سماعت کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا،14 اپریل کو بانی پی ٹی آئی نے بابر اعوان کے ذریعے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی،بابر اعوان نے نشاندہی نہیں کی کہ 11 سال سے زیر التواء بھٹو ریفرنس پر پہلے سماعت کی جائے،ڈاکٹر بابر اعوان بھٹو ریفرنس کیس میں بھی وکیل تھے،
حکمنامے کےمطابق صدروفاق کے اتحاد کی علامت اور عوام کی نمائندگی کرتے ہیں،
آئین یا قانون میں صدارتی ریفرنس میں تمام شہریوں کو نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں ،
عمران خان کے وکیل کے اعتراضات قابل جواز نہیں،
نظرثانی درخواست آئوٹ آف ٹرن مقرر ہونے کا جواز درست نہیں، اس لیے مسترد کیا جاتا ہے،
بینچ کی تشکیل پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے اعتراض اٹھایا،
چیف جسٹس نے اپنے جوابی خط میں بینچ تشکیل سے متعلق وضاحت کی ، حالانکہ چیف جسٹس قانونی طور پر وضاحت دینے کے پابند نہیں،
جسٹس منیب اختر نے بینچ میں شامل ہونے پر اپنی عدم دستیابی سے آگاہ کیا،
حکمنامے کےمطابق جسٹس منصور علی شاہ نے بھی بینچ میں شامل ہونے سے انکار کیا،
جسٹس منصور کے انکار کے بعد جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ میں شامل کیا گیا ،
بینچ کی دوبارہ تشکیل پریکٹس اینڈ پروسیجز قانون کے مطابق ہے،
سپریم کورٹ،پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی یا چیف جسٹس کسی کو بینچ میں بیٹھنے پر مجبور نہیں کر سکتے،یہ اعتراض بھی مسترد کیا جاتا ہے،
بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے صدارتی آرڈیننس کی قانونی حیثیت کا چیلنج کیا،چیلنج کرنے کے ساتھ علی ظفر نے آرڈیننس کے تحت عدالتی کاروائی کی ریکارڈنگ اور ٹراسکرپٹ تیار کرنے کا بھی کہا، کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کی جاتی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔