Friday, November 8, 2024
ہومتازہ ترینسپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر آج چوتھی سماعت

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر آج چوتھی سماعت


اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر سماعت آج پھر ہوگی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کرے گا، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بنچ میں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل مکمل کیے تھے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل علی ظفر نے نظر ثانی درخواستوں کی مخالفت میں دلائل دیے تھے، بیرسٹر علی ظفر کے بینچ پر اعتراض کو عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔
عدالت نے وکیل علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں قانونی مشاورت کے لیے ملاقات کی اجازت دے دی تھی۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر آج بھی دلائل جاری رکھیں گے، وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے نظرثانی درخواستوں کی حمایت کر رکھی ہے۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کو 23 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
واضح رہے کہ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔
اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔
بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور اس کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔
اس معاملے پر مختلف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی۔
آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔
فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔