Friday, March 29, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزگندم سبسڈی پر حکومتی وزراء کے دعوؤں کی حقیقت

گندم سبسڈی پر حکومتی وزراء کے دعوؤں کی حقیقت

گندم سبسڈی پر حکومتی وزراء کے دعوؤں کی حقیقت
تحریر : عاقل حسین
کسی بھی خطے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے زراعت کی ترقی ناگزیر ہے زراعت پر توجہ دیے بغیر عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے اور خطے میں صنعتی ترقی کو فروغ دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے مگر بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں زراعت کو فروغ دینے کی بجائے دن بہ دن اس شعبے کو تالے لگانے کیلئے خود مقامی لوگ بھی روز اول سے کمر بستہ رہے ہیں جو اس خطے کے روشن مستقبل کیلئے خطرے سے کم نہیں ہے۔
1972 سے قبل گلگت بلتستان کے باسی ڈوگرہ راج کے کالے قوانین اور محدود وسائل کے باوجود بھی اپنی زراعت پر انحصار کیا کرتے تھے یہاں لوگ گندم اور آلو سمیت دیگر سبزیاں اور دالوں کو اپنی زمینوں میں وافر مقدار میں کاشت کرتے تھے مگر 1972 کو اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے گلگت بلتستان میں محدود وسائل اور لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کیلئے گندم سبسڈی کا اعلان کیا، ذوالفقارعلی بھٹو کی جانب سے سبسڈی کے اعلان کے ساتھ ہی شاہی نوالے کے شوقین افراد نے اُسی دن ہی کھیتی باڑی کے آلات کو جلا کر سکون قلب حاصل کیا اور اکثر نے کھیتی باڑی کو محدود کرنے پر ہی آرام و سکون کا ذریعہ سمجھ لیا ۔
اس وقت سے لیکر آج تک یہاں کے باسی اپنی زرعی زمینیں بنجر بناکر اسی گندم سبسڈی پر انحصار کرکے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر پنجاب سے لیکر یوکرین تک کی پرانی ناقص کوالٹی کی گندم کھانے پر مجبور ہیں۔
1972 سے لیکر آج 2022 تک کے اس لمبے عرصے میں حکومتی سطح پر بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور مقامی صنعت کے فروغ کیلئے حکومتی سطح پر بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کی وجہ سے مقامی لوگوںکا گندم سبسڈی پر انحصار بڑھنے لگا ہے۔
پہلے یہاں مقامی لوگوں کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے مناسب مقدار میں گندم مناسب قیمت کے ساتھ دور افتادہ علاقوں تک وقت پر پہنچایا جاتا تھا مگر بدقسمتی سے دن بہ دن عوامی مشکلات کم کرنے کی بجائے 2011 کے بعد سے گندم سبسڈی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کی گئی اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ بھی کیا گیا (گندم کی قیمت فی کلو قیمت 8 روپے سے بڑھا کر 11 روپے تک کر دی گئی ) یوں خاموشی سے مکمل سبسڈی کے خاتمے کا منصوبہ عوامی ردعمل دیکھ کر کامیاب بنانے میں ناکام رہے، کہانی یہاں ہی ختم نہیں ہوتی مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں بھی حفیظ سرکار نے بھی اس سبسڈی پر شب خون مارنے پر کوئی کسر نہیں چھوڑی مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں بھی گندم کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا (11 روپے سے بڑھا کر ساڑے بارہ روپے) تک پہنچا کر ہی دم لیا لیکن عوام کے بھرپور احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے حفیظ سرکار بھی سبسڈی کے مکمّل خاتمے کے منصوبے پر کامیاب نہ ہو سکی۔
پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ستائے ہوئے لوگ الیکشن سے قبل حکمراں جماعت کے کئی نئے اہم منصوبوں پر کام کے آغاز سمیت گندم سبسڈی میں اضافہ ، وافر مقدار میں فراہمی کے اعلانات اور وعدوں سے متاثر ہوکر تحریک انصاف کا بھر سر اقتدار آنا خطے کیلئے نیک شگون سمجھ رہے تھے مگرتحریک انصاف کا گلگت بلتستان میں خالد خورشید کی سربراہی میں بر سر اقتدار آنے سے لیکر آج تک مسلسل ناقص گندم کی فراہمی اور بحران نے عوام کو مایوس کر دیا ہے۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید حلف برداری کے چند ماہ بعد ہی عوام کو گندم سبسڈی چھ ارب سے بڑھا کر آٹھ ارب کرنے کی خوش خبری سنا کر جھوم اٹھنے پر مجبور کر چکے تھے وہیں مشیر خوراک شمس لون نے بھی مزید مرچ مسالہ لگاکر عوام کو گھر کی دہلیز پر معیاری گندم وافرمقدار میں فراہم کرنے کی یقین دہانی کروانے پر کامیاب ہوئے تھے اور رہی سہی کسر پیڈ ٹائیگرز نےاپنا رزق حلال کرنے کیلئے سوشل میڈیا میں خوب تشہیر کرکے پوری کر دی تھی مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کارکردگی دعوؤں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے نظر آتی ہے ہوا بھی کچھ یوں ہی کہ گندم سبسڈی میں کٹوتی اور بروقت گندم کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے جولائی 2021 سے ہی گلگت اور سکردو شہر میں آٹے کی قلت کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔
گندم سبسڈی میں کٹوتی اور بروقت گندم کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے جولائی 2021 سے ہی گلگت اور سکردو میں آٹے کی قلت کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنے لگے تو مشیر خوراک شمس لون سمیت دیگر وزراء نے وزیراعلیٰ خالد خورشید کے ساتھ یک زباں ہوکر اسے سیاسی مخالفین کی سازش اور مصنوعی بحران قرار دے دیا مگر جوں ہی میڈیا نے جون اور جولائی کے مہینے میں گندم کوٹے میں کٹوتی کے حقائق عوام کو بتائے تو منتخب وزراء نے یقین دہانی کرائی کہ اگست مہینے سے کوٹے کے ساتھ جون، جولائی کے مہینے میں جتنی گندم کی بوریوں کی کٹوتی ہوئی ہے وہ بھی ہر صورت گلگت بلتستان پہنچا دینگے مگر یہ وعدہ بھی پورا نہ ہوا، مشیر خوراک شمس لون سے جب بھی قانون ساز اسمبلی کے فلور یا پریس کانفرنسیز میں کیمروں کے سامنے گندم بحران کے حوالے پوچھا جاتا تھا تو چیخ چیخ کر ہاتھوں کو لہراتے ہوئے کہتے تھے کہ سیاسی یتیموں کی سیاست یہاں (گندم کے بحران میں نہیں چلے گی جن کی میں نے ضمانت ضبط کرائی ہے انشاءاللہ اگست کے مہینے میں گلگت بلتستان کے کونے کونے میں معیاری گندم وافر مقدار میں مقررہ وقت پر پہنچا دیں گے مگر حقیقت بلند و بانگ دعوؤں کے برعکس رہی اگست 2021 کے بعد حکومت اور عوام دونوں کو اصل امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔
اگست کے مہینے کے بعد گلگت بلتستان کے باسیوں کیلئے گندم سبسڈی کے نام پر یوکرین کی مضر صحت ناقص کوالٹی کی گندم مہنگے داموں خریدی گئی اور گلگت کے تمام اضلاع کیلئے سردیوں کے سٹاک کے طور پر گلگت بلتستان کے کونے کونے تک گوداموں میں پہنچایا گیا ، اسی دوران مشیر خوراک نے بیان داغ دیا کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے گندم سبسڈی کو چھ سے بڑھا کر آٹھ ارب کرکے وافر مقدار میں اعلیٰ کوالٹی کی گندم عوام کو اُن کے گھر کی دہلیز پر پہنچائی ہے، اسی بیان کے چند ہی دن بعد گلگت بلتستان کے کونے کونے سے گندم کی ناقص کوالٹی اور سبسڈی میں کٹوتی کی چیخ و پکار عوامی حلقوں سے سنائی دی تو وزیراعلیٰ خالد خورشید، وزیر خوراک شمس لون اور دیگر وزراء کے ہوش ٹھکانے آنے لگے اور پھر مشیر خوراک شمس لون نے اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ گندم کی کوالٹی بہتر نہیں ہے جس کی وجہ سے آٹے کا معیار بہتر نہیں، گندم کی کوالٹی کے حوالے سے عوامی شکایات بلکل درست ہے . ناقص گندم کے خلاف عوامی غم و غصہ بھی ابھی تھما ہی نہ تھا کہ دسمبر کے مہینے میں گلگت اور سکردو میں فلور ملز کے کوٹے میں کٹوتی کی خبروں نے مشیر خوراک شمس لون کی وافر مقدار میں گندم گلگت بلتستان کے کونے کونے میں پہنچانے کے دعوؤں کا پول بھی کھول دیا، بائیس دسمبر 2021 کو سکردو فلور ملز ایسوسی ایشن نے واضح کردیا کہ سکردو کی فلور ملز کو پہلے یومیہ 372 بوریاں دی جارہی تھیں اب کٹوتی کے بعد صرف 292 بوریاں فراہم کی جارہی ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کوٹے میں اضافے کے بجائے کمی سے بڑے مسائل پیش آرہے ہیں۔
یوں حقائق پر مبنی جب خبریں سامنے آئیں تو مشیر خوراک شمس لون نے بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ یقیناً کوٹے میں کٹوتی ہوئی ہے مگر وہیں انہوں نے فیس سیوننگ کیلئے ایک بیان داغ کر مزید خود اُس میں پھنس گئے شمس لون نے کہاں کہ گندم یوکرین سے منگوانا پڑی اس لیے آٹھ ارب روپے بھی کم پڑ گئے اور لیے گندم بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب یہاں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا یوکرین سے منگوائی جانے والی گندم کی کوالٹی کا ناقص ہونے کا پہلے علم نہیں تھا؟ اگر نہیں تھا تو کیا یہ محکمہ خوراک کی لاپرواہی، غفلت اور غیر سنجیدگی نہیں؟ اگر ناقص کوالٹی کا علم تھا تو مضر صحت گندم غریب عوام کو حکومتی سرپرستی پر کھیلانا ناقابل معافی جرم نہیں کیا؟ اسی طرح یوکرائن کی گندم مہنگی مل رہی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کیوں خریدی گئی کیا سبسڈی کی مقررہ رقم میں کوٹے کی پوری بوریاں نہیں مل سکتی ہیں؟ کیا محکمہ خوراک نے پہلے ہی ہوم ورک نہیں کیا تھا؟ یا پھر مقصد اس سال عوام کو ایک وقت کی روٹی کھانے سے روکنے تھا؟
جب گندم کی ناقص کوالٹی اور گندم سبسڈی میں کٹوتی پر عوامی حلقوں اور اپوزیشن کی جانب سے محکمہ خوراک میں کرپشن کے شدید الزامات کا سامنا کرنا پڑا تو اسمبلی کے فلور میں کھڑے ہوکر مشیر خوراک شمس لون نے ایک بار پھر شعلہ بیانی کے ساتھ ایک بیان داغ دیا کہ میرے محکمے میں اوپر سے لیکر نیچے تک ایک روپے کی بھی کرپشن ہوئی تو اُس کا زمہ دار میں ہوں اور میں اپنا عہدہ چھوڑ دونگا
استور سے آٹا سمگلنگ پر جب عوامی شدید ردعمل سامنے آیا تو مشیر خوراک اور ضلعی انتظامیہ نے ایک بار پھر فیس سیوننگ کیلئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر حقائق منظر عام پر لانے کی یقین دہانی کروائی، مگر آج تک حقائق منظرِ عام پر لانا تو دور تحقیقات میں پیش رفت کے حوالے سے بھی میڈیا کو آگاہ کرنے کی زحمت نہیں کی گئی
آج بھی گلگت بلتستان کے شہری علاقوں میں آٹے کا اور بالائی علاقوں میں گندم کا شدید بحران ہے مگر صوبائی حکومت عملی طور پر عوامی مشکلات حل کرنے میں ناکام ہی نظر آتی ہےآخر میں گزارش یہی ہے کہ صوبائی حکومت اور منتخب نمائندوں کو اپوزیشن اور مخالفین کے ساتھ الجھ کر وقت ضائع کرنے کی بجائے عملی طور پر عوامی مسائل وقت پر حل کرنے کیلئے ہوم ورک کے ساتھ سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے پانچ سال بعد منتخب نمائندوں کو خود بولنے کی بجائے اُن کا کام بولنا چاہیے۔
جہاں تک وفاق مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے پیچھے دس سالوں سے گندم سبسڈی ختم کرنے کیلئے موقعے کی تلاش میں ہے ،وفاق کو چاہیے کہ گلگت بلتستان میں زراعت کے فروغ کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے1971 کے بعد گلگت بلتستان کی زرخیز زمینوں کو جو بنجر بنایا گیا تھا اُن کو دوبارہ زرخیز بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے اور گلگت بلتستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے بےشک یہ سبسڈی کا خاتمہ کرکے اپنی تمنا پوری کریں گلگت بلتستان کے لوگ بھی اپنے خطے میں زراعت کا فروغ چاہتے ہیں۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی