Thursday, March 28, 2024
ہومشوبزوحید مراد نے موت سے دوہفتے قبل کس خواہش کا اظہار کیا تھا؟

وحید مراد نے موت سے دوہفتے قبل کس خواہش کا اظہار کیا تھا؟

وحید مراد نے حصول تعلیم کے بعد اپنا فلمی سفر اپنے والد نثار مراد کے فلمساز و تقسیم کار ادارے مراد فلم کارپوریشن کے بینر تلے ذاتی فلم جب سے دیکھا ہے تمہیں سے کیا اور اس کے بعد انسان بدلتا ہے بھی پروڈیوس کر ڈالی۔ان فلموں کی تکمیل کے دوران فلمسٹار درپن نے انھیں خاصا تنگ کیا کیونکہ وحید مراد کا تعلق کراچی سے تھا اور دونوں فلمیں بھی وہیں بنی تھیں اور دونوں میں ہیرو کا کردار درپن ادا کر رہے تھے جو لاہور سے مقررہ وقت پر کراچی نہ پہنچتے اور وحید مراد کو خاصا نقصان اٹھانا پڑتا۔درپن کی طرف سے دی جانے والی پریشانی میں بھی کچھ راز پنہاں تھی۔ درپن کے انتظار نے فلمساز وحید مراد کو پریشان کر دیا تو ایسے میں ان کی فلم کی ہیروئین زیبا بیگم نے ان کو ایک ایسا مشورہ دیا جس نے وحید مراد کی زندگی کی کایا ہی پلٹ ڈالی۔بی بی سی رپورٹ کے مطابق زیبا بیگم نے وحید مراد سے کہا کہ ویدو تم خود کیوں ہیرو نہیں بن جاتے ،تم میں کس بات کی کمی ہے۔ وحید مراد نے برجستہ جواب دیا کہ نہیں میری رنگت گہری سانولی ہے، میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔لیکن درحقیقت زیبا بیگم کی کہی ہوئی بات وحید مراد کے دل کو بھا گئی اور انھوں نے مشورے پر عمل کرنے سے پہلے خود کو فلم کے پردے پر آزمانا چاہا اور ایس ایم یوسف کی فلم اولاد میں کام کرنا قبول کر لیا۔یوں کیمرے کے پیچھے کھڑا وحید مراد جب کیمرے کے سامنے آیا تو کیمرے نے کمال گرمجوشی سے اسے خوش آمدید کہا۔کیمرے کی قبولیت کے بعد وہ دیکھنے والوں کی نگاہوں کو کچھ یوں بھائے کہ دیکھتے ہیں دیکھتے ہر نگاہ کا مرکز اور دل کی دھڑکن بن بیٹھے اور زیبا بیگم کا ویدو کو دیا ہوا مشورہ کارگر ثابت ہوا اور وہ فلمساز سے فلم ہیرو بن گئے۔ان کی چال ڈھال، نشست و برخواست اور انداز و گفتار کسی دوسرے فنکار سے میل نہ کھاتے تھے۔ انھوں نے اداکاری کے نئے اسلوب متعارف کروائے، اپنے کرداروں میں حقیقت سے قریب ترین ایکسپریشن اور ڈائیلاگ ڈلیوری کو اپنایا، گانے کی پکچرائزیشن میں ان کا انداز اس قدر جاذب نظر تھا کہ ساتھی اداکاروں کے علاوہ ہمسایہ ملک کے اداکار بھی مرعوب ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ان کا سراپا گانے کی دھن سے کمال انصاف کرتا، ان کے جسم کا ہر ہر عضو اور خصوصا پاں موسیقی کے سموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے محسوس ہوتے۔ ان کا منفرد ہیئر سٹائل ان کے چہرے کو مزید دلکش بنا دیتا اور برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وحید مراد کے ہیئر سٹائل کو سب سے زیادہ اپنایا اور پسند کیا گیا۔فلم اولاد کی کامیابی کے بعد وحید مراد ایک بار پھر ذاتی پروڈکشن کی جانب لوٹ آئے اور فلم ہیرا اور پتھر کا آغاز کیا جس نے انھیں مکمل ہیرو بنا دیا اور رہی سہی کسر فلم ارمان نے پوری کر دی اور وہ پاکستان فلم انڈسٹری کے سپر سٹار بن گئے۔ان دونوں فلموں میں وحید مراد کی ہیروئین وہی زیبا بیگم تھیں جنھوں نے وحید مراد کو پروڈیوسر سے ہیرو بننے کا قیمتی مشورہ دیا تھا۔وحید مراد ذاتی سرمائے سے بننے والی فلموں ہیرا اور پتھر اور ارمان کی گولڈن اور پلاٹینم جوبلی کے ذریعے سپر سٹار بنے تو لاہور کی فلم نگری نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔کراچی کو چھوڑنا ان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن بہترین مستقبل کے لیے انھوں نے یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیا اور لاہور شفٹ ہو گئے۔لاہور کے فلمسازوں نے وحید مراد پر فلموں کی بارش کر دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سنتوش کمار اور درپن کا چل چلا تھا اور فلم انڈسٹری میں اچھے ٹیلنٹڈ ہیرو کی کمی محسوس کی جا رہی تھی۔ اردو ورژن کی فلموں کے لیے محمد علی اور کمال کے علاوہ کوئی قابل اداکار موجود نہ تھا اور وحید مراد کی آمد کے بعد فلمی صنعت کو ایسا ہیرو مل گیا جو پوری فلم کا بوجھ اٹھا سکتا تھا۔وحید مراد کی فلمی دنیا میں آمد کے کچھ عرصہ بعد مشرقی پاکستان کی فلم چکوری کے ذریعے ندیم متعارف ہوئے اور یوں پاکستانی فلم سکرین پر سپر سٹار کی تکون بن گئی جو محمد علی، وحید مراد اور ندیم جیسے پسندیدہ اداکاروں پر مشتمل تھی۔محمد علی، وحید مراد اور ندیم کی اس تکون نے پاکستان فلم انڈسٹری پر راج کیا لیکن اس تکون میں بھی وحید مراد کی انفرادیت نے اپنا رنگ جمائے رکھا۔ ان کی اداکاری کے منفرد اسلوب کا ایک زمانہ معترف رہا۔اس زمانے کی نامور اداکارہ زیبا، وحید مراد کی پہلی باقاعدہ ہیروئین تھیں اور ان کی کامیابی میں وحید مراد کا عمل دخل نمایاں تھا کیونکہ انھوں نے ترقی کے یہ زینے وحید مراد کی فلموں ہیرا اور پتھر اور ارمان کی بے مثال کامیابیوں کے ذریعے چڑھے تھے۔اپنے وقت کی ناموراداکارہ دیبا بیگم نے وحید مراد کے ساتھ 22 کے قریب فلموں میں کام کیا اور ذاتی پروڈکشن میرے جیون ساتھی میں بھی وحید مراد کوہی کاسٹ کیا تھا لیکن افسوس کہ یہ فلم ڈبوں میں بند ہو کر رہ گئی۔وحید مراد نے اپنی وفات سے دو ہفتے قبل اپنے دیرینہ دوست انور مقصود کے پروگرام سلور جوبلی میں اس بات کا برملا ااظہار کیا تھا کہ اگر میں نہ رہوں، مجھے کچھ ہو جائے یا میں دنیا سے اٹھ جاوں تو مجھ پر فلمبند یہ گانا میری موت کے بعد کی زندگی کا عکاس ہو گا:
بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں
جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا اک سوال ہوں
لیکن وحید مراد کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں جس قدر شہرتیں سمیٹیں، وہ اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ وہ موت کے 38 برس بعد بھی زندہ و جاوید ہیں۔وحید مراد کو جہان فانی سے رخصت ہوئے 38 برس بیت چکے ہیں لیکن موجودہ نسلیں ان کو فلم یا ٹی وی سکرین پر دیکھ کر آج بھی دل ہار بیٹھتی ہیں۔