Friday, March 29, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگز‏ ہمارے دور کے فتنے

‏ ہمارے دور کے فتنے

تحریر :ماریہ بلوچ
‎@ShezM
اس بات میں تو اب دورائے نہیں کہ ہم دورآخر میں داخل ہو چکے ہیں وہی دور جسکے بارے میں احادیث میں بڑی وضاحت سے بتایا گیا تھا انتہائی پر فتن دور ہے یہ اس دور میں دین پر چلنا مٹھی میں کوئلے پکڑنے سے بھی مشکل ہوگا اور اب واقعی ایسا ہی ہے ۔ دین کے بارے میں شکوک و شبہات اس قدر پیدا کر دیے گئے ہیں کہ ہم مسلمان مکمل طور پر کنفیوزہوچکے ہیں۔۔
قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ شعائر اللہ کے بارے میں بھی شکوک پیدا ہوچکے ہیں۔ اور یہ سب دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔
قرآن کے الفاظ تو 1400 سال کے بعد بھی اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح اللہ نے نازل فرمائے تھےگزشتہ صدی میں مگر تراجم میں اختلاف اور من پسند مطلب نکال نکال کر امت کو بانٹا گیا۔ مختلف فرقے وجود میں آگئے ایک کتاب والے بھی تفریق کا شکارہوگئے مسلمانوں نے اپنی شناخت قرآن کی بجائے اپنے اپنے مکتبہ فکر سے منسلک کرلی۔اوراس فرقہ پرستی میں پڑ کر قرآن سے دور ہوتے چلے گئے وہ قرآن جس میں اس پر فتن دور میں محفوظ رہنے کے سب راستے درج تھے ہم مسلمانوں نے اسی قرآن کو ادب کے ساتھ محفوظ کر کے اپنا فرض ادا سمجھ لیا۔۔۔
جب اس سے بھی امت کی مکمل تباہی نہ ہوسکی تو اگلا قدم حدیث نبویﷺ کی طرف بڑھایا گیا۔ مختلف نام نہاد علما اپنی کم عقلی کی بنیاد پر مختلف آراء لے کر میدان میں اترے اور سب سے پہلے اعتراض اٹھایا گیا کہ انتہائی مستند حدیث کی کتب بھی نبیﷺ کے وصال سے300 سال بعد لکھی گئیں لہذا ان کے مستند ہونے پر شکوک پیدا کیے گئے۔ امت کو یہ تو کہا گیا کہ سب سے پہلی لکھی جانے والی حدیث کی کتاب 300 سال کے بعد مرتب ہوئی مگر یہ نہیں بتایا گیا اس دور کے علما و فقہا نے اس کام کے لیے اپنی زندگیاں کیسے وقف کیں۔ ترمذی بخاری و مسلم مرتب کرنے کے لیے ایک ایک حدیث کے پیچھے کس قدر محنت و احتیاط سے کام لیا گیا تھا۔ محض ایک شک نے مسلمان کے دل سے حدیث کی اہمیت کو کم کرتے کرتے اس حد تک ختم کر دیا کہ وہ حدیث کے ہی انکاری ہو گئے اور انہوں نے صرف قرآن کو کافی سمجھنا شروع کر دیا۔ یہ سمجھے بغیر کہ اگر وہ صرف قرآن پر اکتفا کریں تب بھی وہ قرآن کی آیت اور اللہ کے فرمان کے انکاری ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ نے خود کہا
” اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول ﷺکی اطاعت کرو”
اور اطاعت رسول ﷺ کے بغیر تو ہم اپنی عبادات بھی نہیں کر سکتے جن کا حکم قرآن میں دیا مگر انکو کب اور کس طرح ادا کرنا ہے یہ ہمیں حدیث سے ہی مکمل تفصیل مل سکتی ہے۔
اور اس سب کے بعد مسلمانوں سے شعائراللہ لینے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ اسلام میں ایسے شعائر و احکامات جن پر تمام مسالک کا اجتہاد رہا ہو ان کو بھی معترض بنایا گیا۔۔
کبھی پردے کو نبیﷺ کے دور میں اس دور کی ضرورت کہا تو کبھی داڑھی کا مذاق بنا کر فقط عرب کا کلچر کہا اور اب تو بات بڑھتے بڑھتے قربانی جیسی عظیم عبادت کے انکار تک پہنچ چکی ہے ۔۔
آخر ایسا سب کیوں ہو رہا ہے؟؟؟ ہم سوچتے کیوں نہیں؟؟ ہم نے اللہ کی دی ہو سب سے بڑی نعمت یعنی اپنے دین کو ہی مذاق سمجھ رکھا ہے۔۔۔ ہم فقط مرضی کا دین پریکٹس کرنا چاہتے ہیں کہ جو ہمیں دین میں پسند ہو ہم لے لیں اور جو ناپسند ہو اس پر اعتراض اور عقلی دلائل کی مہر لگا کر چھوڑ دیں۔۔ اگر ہم غورکریں تو یہی سب بنی اسرائیل نے کیا تھا جس پر انہیں بار بار تنبیہہ کے بعد عذاب دیے گئے ۔۔ ہم مسلمان بھی اسی روش پر چل پڑے ہیں ہمیں اللہ سے معافی مانگ کر خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔۔ اللہ ہم سب کوحقیقی ہدایت کا راستہ دکھائے آمین۔