Thursday, March 28, 2024

زندگی کی اڑان

حمیرا الیاس
@humma_g
وہ روز صبح ہی صبح اڑان بھرتی، اور اپنی چونچ میں کچھ نہ کچھ بھر کرلاتی ریتی،تب تک جب تک بچوں کی بھوک ختم نہ ہوجائے۔ اور میں روزانہ یہ اڑان دیکھتی۔اس کو بس ایک ہی راستہ آتا تھا، اپنے گھونسلے سے فضاء تک، اور واپس سیدھا گھونسلے میں۔
پھر ایک دن کیا ہوا کہ صبح کی چہل پہل میرے روشن دان میں ختم ہو چکی تھی۔ اور وہاں بس خاموشی کا راج تھا چڑیا کے بچے اڑنا سیکھ چکے تھے اور وہ گھونسلا چھوڑکراڑگئے چڑیا بھی دوبارہ نظرنہ آئی اس تمام عرصے میں اس خوبصورت چڑیا نے اپنے بچوں کو بہترین سبق دے دیا تھاکہ اپنے لئے خود اڑان بھرنا،اور نیچے دیکھے بنا فضاء میں بلند ہوتے چلے جانا۔ یہ بلندی ہی تمہارا مسکن ہے، اور اپنے زور بازو پر زور زبردستی کے بنا جو رزق تمہارے لئے رکھا گیا جاؤجا کر ڈھونڈو اس نے بچوں کو ایک خاص مدت تک سب سکھا یا پھر انہیں خود سے جدا کردیا۔ کافی دن انتظار ک کے گھونسلہ ادھر سے ہٹادیا۔
تھوڑے دن گزرے تھے کہ ہماری کام والی واویلا کرتی آن موجود ہوئی، امی کے سامنے بیٹھےروئے جائے، پانی کھانا،چائے پینے کے بعد کچھ ڈھارس بندھی تو پتا چلا کہ بیٹے کی نوکری دوسرے شہر میں ہو گئی بہت اچھی تنخواہ مل رہی اب ماں کے لئے اس گھر کو چھوڑنا اپنے محلے داروں رشتے داروں سے دور رہنا ممکن نہیں ہو رہا اور وہ زور دے رہی تھی کہ کوئی اس کے بیٹے کو سمجھائے اپنے شہر سے دور نوکری نہ کرے اور وہ رات اس سوچ میں گزری کہ ماں تو ماں ہے، وہ کیوں اتنا کچھ کرتی وہ کسی پرندے کی ہو یا انسان کی خود سے بڑھ کر اپنی اولاد کو دیتی ہرسکھ کے لئے بار بار اڑان بھرتیاندر باہر کے چکر کاٹتی۔
لیکن کیاوجہ ہے کہ چڑیا اپنے بچوں کو گھونسلے سے اڑان بھرنا سکھاتی
جبکہ ہمارے معاشرہ کی ماں اسے اڑان سکھانے کے بجائے خود خوفزدہ اورغیرمحفوظ ہوجاتی
کیوں؟؟
بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہم پہلے سے ہی یہ سوچ کر بچے پیدا کرتے کہ یہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔
ہجرت ہر پیغمبر کی سنت ہے، لیکن ہم ہجرت کے نام سے ہی خوفزدہ ہونے لگتےہم گھروندے بنا کر انہی میں اپنی وابستگیاں اتنی گہری لگاتے کہ ان کے ٹوٹ جانے سے ڈرنے لگتے۔
یہی خوف بڑھ کر ہمارے بچوں کے اوپر ہروقت چھایا رہتا ہے ہم ان کی پرواز سے ڈرجاتے کہ کہیں کسی کو نقصان نہ پہنچ جائے اور یوں ان کی اونچی اڑان کی راہ میں ہم خود رکاوٹ بن جاتے
کیا ہم اس چڑیا سے زیادہ بے بس اور کمزور ہیں؟ جس نے اپنی اولاد کو پروازکرنا سکھایا، آزاد کردیا کہ جاؤ، اس دنیا میں گھومو، پھرو اور اللہ کی تسبیح بیان کرو۔
ہمارے معاشرہ میں ہر جگہ پر محدود سوچ کی بنیادی وجہ ہمارا اپنے بچوں کو یہ ترغیب دینے سے کوتاہی ہی ہے۔
ذمہ داری بحیثیت والدین یا اساتذہ یہی ہے کہ ہم انہیں اڑان بھرنا سکھائیں اور جب وہ آزادانہ رہنے کے قابل ہو جائیں تو انہیں اپنی زندگی کو جی کر دیکھنے دیں۔
ہاں ایک انسان اور چڑیا میں اتنا فرق ضرور ہے کہ والدین اپنی اولاد کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی دونوں کے لئے ان کے پیچھے موجود رہیں تاکہ ان کے پروں کی سمت صرف اونچی پروازہی کی طرف اشارہ کرے، بس یہی ایک طریقہ ہو سکتا اس وقت گرتی معاشرتی اقدار کو سہارا دینے اور واپس اوج ثریا کو پانے کا۔