Saturday, April 20, 2024
ہومکالم وبلاگززہر سے تریاق کا کام

زہر سے تریاق کا کام

تحریر: تنویر اعوان

ملک کے موجودہ سیاسی بحران میں پاک ادارے نے جو پُرحِکمت قومی کردار ادا کیا اس نے پاکستان کو مشکلات سے بچایا ہے اور عمران خان کی ختم ہو چکی سیاست کو ایک نئی اور توانا زندگی دی ہے۔ تاریخ جو لکھے گی تو لکھے گی لیکن پاک اسٹیبلیشمنٹ کی ملک و قوم کے لیے بہترین حکمت عملی کا اگلے ایک دو سال میں ہی سب کو علم ہو جائیگا اور پھر وہ لوگ اپنی بغلیں جھانکیں گے جنہوں نے آج صرف زبان کو تلوار بنایا ہوا ہے۔ ملکوں اور قوموں کو زندگی پانے کے لیے بہت بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں جو وقتی طور پر بہت بڑی تکلیف اور ناکامی محسوس ہوتے ہیں جن کو عام ذہن لوگ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں لیکن تاریخ کا دھارا ثابت کرتا ہے کہ صلح حدیبیہ کا تلخ گھونٹ دراصل ”فتح مبین ”کا پیش خیمہ تھا۔ حالانکہ پہلے پہل صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے ”پاک فکر و فہم والے دماغ ” بھی اس معاہدے کے اندر ”مضمر حکمت ”کو تسلیم کرنے میں ”چِیں بچِیں”تھے اور وہ حق بجانب تھے کہ ان کڑی، جانبدارانہ اور یک طرفہ شرائط کو پہلی نظر میں ماننا مشکل ہی تھا کیونکہ بظاہر تمام شرائط ایسی تھیں جن سے لگتا تھا کہ مسلمانوں نے بہت جھک کر اور دبائومیں معاہدہ کیا ہے لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ ”تسلیم و رضائے الہی ”کے خوگر ایمان والوں کو اس دور میں جو امن و سکون ملا اور جنگ و جدل سے فرصت ملی تو آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق حسنہ نے سارے عرب کو متاثر کیا۔ اور معاہدے نے قرب و جوار کے تمام علاقوں اور قبائل پر یہ سیاسی و سماجی اثر ڈالا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک طاقت ور شخصیت بن گئے ہیں اور ان کے پیغام میں حقیقت ہے کہ وہ پھیل رہا ہے اور محمد ۖ کے ماننے والے بڑھتے بڑھتے اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ کفارِ مکہ مسلمانوں کو فتح کرنے کے ارادے سے پیچھے ہٹ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صلح کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں امن کے اس دور میں آپ کے تربیت یافتہ ایثار پسند فی سبیل اللہ زندگیاں وقف کرنے والے صحابہ کے قول و فعل کے تضاد سے پاک عمل اور درویشی نے عرب کے کونے کونے میں دینِ اسلام کے اعلی و ارفع ہونے کو ثابت کر دیا انکی جدوجہد نے دینِ اسلام کو مکہ و مدینہ کے قرب و جوار میں ہی نہیں بلکہ ارد گرد کی ایرانی اور رومی سلطنتوں تک بھی دینِ اسلام کا پیغام پہنچایا۔ صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین کی ماسوا اللہ بے خوفی اور رسول کریم ۖ پر والہانہ قربان ہوجانیوالا عشق دیکھ کر شاہانِ روم و ایران بھی رشک کئے بغیر نہ رہ سکے۔
گذشتہ تین ماہ سے ملک جس بحرانی کیفیت میں تھا اور وزیرِ اعظم عمران کے دورئہ روس اور روس کے کے یوکرائن حملے پر پاکستان کی مذمت نہ کرنے کو بہانہ بنا کر جو عالمی پریشر ہم پر ڈالا گیا اور سفارتی سطح پر جو زبان استعمال کی گئی وہ کسی لحاظ سے بھی ایک خود مختار نیوکلیئر پاور کے شایانِ شان نہیں تھی۔ لیکن کیا پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ وہ ڈٹ جاتا؟ اور امریکہ ، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کی سازش کا شکار ہو کر کسی بھی قسم کی عالمی پابندیوں کی زد میں آجاتا؟۔ ایسے موقع پر ملک کے پالیسی ساز اداروں نے ایک بہترین حکمت عملی اپنائی اور ملکی سالمیت کے لیے جو خطرناک ماحول بن رہا تھا اور عمران خان کو ٹارگٹ بنا کر اس کے پسِ پردہ جو کھیل کھیلنے کے لیے بساط بچھائی جا رہی تھی وہ کسی بھی حال میں ملک و قوم کے مفاد میں نہیں تھی اور تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی اختلاف کا کیسے کیسے بڑے لوگ نوالہ بن چکے ہیں اور ہماری سیاسی حریف پارٹیاں اور حالات کے ہاتھوں مجبور موجودہ اتحادی جو ماضی میں باری باری اقتدار میں رہ چکے ہیں اور ان پر کرپشن کے بڑے سوال ہیں وہ ہر صورت اقتدار تک رسائی اور اپنے اوپر بنے مقدمات سے کوئی این آر او چاہتے تھے کیونکہ عمران خان انہیں کوئی راستہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا جب کہ این آر او کے بغیر ان کے پاس بچت نہیں تھی اور اس کے لیے وہ کسی حد تک بھی جانے کے لیے تیار تھے جیسا کہ ماضی میں جنرل پرویز سے بھی انہوں نے این آر او لیکر اس کے زیرسایہ نہ صرف الیکشن میں حصہ لیا بلکہ اس سے حلف برداری کا ”کریہہ ” بوجھ اٹھانا بھی اپنے ضمیر پر گوارہ کر لیا۔ اس لیے یہ ممکن تھا کہ سیاست کے یہ مہریکسی کے ہاتھ میں بھی کھیل جاتے اور ملک اِن ڈائریکٹ ملک مخالف قوتوں کے ہاتھ میں چلا جاتا اور عمران خان جیسا ایک عالمی لیڈر ضائع ہو جاتا۔ ملک اور قوم ہمیشہ لیڈر پیدا کرتے ہیں لیکن عالمی لیڈر ہمیشہ پیدا نہیں ہوتا۔ عالمی لیڈر پیدا کرنے میں قوموں کو برسوں لگتے ہیں بھٹو صاحب اور عمران خان کی پالیسیوں اور اندازِ حکومت کا میں اگرچہ سخت ناقد ہوں لیکن اختلاف کے باوجود بھٹو صاحب اور عمران خان کو محب وطن اور عالمی لیڈر تسلیم کرنے کے سوا کوئی یارا نہیں ہے۔
ملک کو صرف سیاسی حکمران ہی نہیں چلاتے بلکہ چند پالیسی ساز ادارے بھی ہوتے ہیں جن کا وجود مستقل ہوتا ہے جو پس پردہ رہ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور پالیسیوں کے تسلسل کو متاثر نہیں ہونے دیتے۔ ان اداروں کے وجود کے بغیر کوئی ملک قائم نہیں رہ سکتا اور وہ ادارے اگر نیوٹرل ہو جائیں تو” ڈھاکہ فال ”جیسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں سیاسی لیڈرز کی پسند ناپسند، اقربا پروری اور خوشامد کے بل بوتے پر بہت سے سیاست سے نابلد بھی قومی منظر پر ابھر آتے ہیں جن پر اگر مانیٹرنگ رکھنے والے ادارے نہ ہوں تو ملک کو ”بنانا ریپبلک ”بنتے دیر نہیں لگتی۔
پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ملک ہے اِس کے پاس انسانی حیات برقرار رکھنے کے تمام وسائل موجود ہیں۔ لہذا اس پر عالمی جنگیں بھی انسانی حیات کو ختم کر دینے والی فلاکت زدہ اور جان لیوا بھوک مسلط نہیں کر سکتیں۔ ایسے ملک کو مکمل طورپر سیاسی انارکی اور طوائف الملوکی کے حوالے نہیں کیا سکتا اور نہ ہی در پردہ کھیلنے والی غیر ملکی قوتوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟ اب جب ملک پر جس سیاسی پارٹی کا وزیراعظم ہے تو اس سیاسی پارٹی کے لیڈر ، اس کے سمدھی اسحاق ڈار اور اس کے بیٹوں کو پھر بھی حوصلہ نہیں ہو رہا کہ وہ ملک میں آ جائیں کیونکہ وہ اداروں کی ”سائنس اور ٹریپنگ ” سے اچھی طرح واقف ہیں اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھا جب بیماری کے بہانے ملک سے باہر گیا اس کے باہر چلے جانے کے بعد بھی اس کے سمدھی کی سیاسی پارٹی کی حکومت کئی مہینے برقرار رہی اور وہ ملک سے باہر بیٹھ کر بھی وزیر خزانہ رہا لیکن ملک میں نہیں آیا کیونکہ اسے اپنی حقیقت اور اصلیت کا بخوبی علم ہے اور ان کا بھی جو جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کی خدمت کر رہے ہیں اور جنہوں نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اگرچہ آج پارٹی کی حکومت ہے لیکن وہ سرفروش بھی سربکف ہوکر منتظر ہیں۔
زیادہ کُھل کر نہیں لکھا جا سکتا کہ ملک و قوم ، آزادی اور لکھنے والا قلم جہاں عظیم نعمتیں ہیں وہاں ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے جس کی حفاظت و احترام کرنے کے لیے خون کی قربانی دینا بھی عظیم ترین سعادت کی بات ہے لہذا ذہن نشین کرلیں کہ اداروں نے ملک کو عالمی سازش کا شکار ہونے سے بھی بچایا اور ایک عالمی لیڈر کو سیاسی خودکشی کا شکار بھی نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ آج بہت سے عظیم محب الوطن بھی دل گرفتہ ہیں اور” پاک ادارے”کے ساتھ ان کا عشق متاثر ہوا ہے لیکن جب پردہ اٹھے گا اور انہیں پتہ چلے گا کہ قومی محافظوں نے ”زہر ”سے کیسے ”تریاق ”کا کام لیا تو وہ اپنے ”ایمان ، تقوی ، جہاد فی سبیل اللہ ”کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ فخریہ عشق کریں گے ان شااللہ۔