Friday, March 29, 2024

شجر تنہا

تحریر:حبیب الرحمٰن خان

@HabibAlRehmnkhn
آج سوچا کہ کیوں نہ عمران خان کی زندگی پر کچھ لکھنے کی جسارت کرلوں
عمران خان 1952 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہے ان کے والد انجینئر اکرام اللّٰہ خان نیازی اور والدہ شوکت خانم ہیں زندگی کی شروعات اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے بہت ہی لاڈ پیار سے ہوئی۔ 13 سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کیا ۔ تعلیم کیبل کالج،ایچی سن کالج راہل گرائمر اسکول اور آکسفورڈ یونیورسٹی۔ عوامی خدمات اور رفاعی اداروں کے قیام میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اورنمل یونیورسٹی نمایاں ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ وہ بریڈفورڈ یونیورسٹی کے اعزازی چانسلر بھی رہے ہیں
اپنی عمر کے ابتدائی دور میں لاابالی انداز زندگی نمایاں تھا۔ خواتین کے ساتھ رومانس کے حوالے سے بھی شہرت پائی چونکہ گھر سے روک ٹوک نہیں تھی سو اپنی زندگی کے فیصلوں میں خود مختار تھے۔ ضدی اور اپنے فیصلوں پر قاہم رہنا بھی مزاج میں شامل تھا۔ جس پر اعتبار کرتے آنکھیں بند کر کے اعتبار کرتے اوراسی وجہ سے کئی دفعہ نقصان بھی اٹھایا اورجس سے نفرت کی اور اپنی دانست میں جس کو غلط سمجھا اسے کبھی مڑ کر نہ دیکھا ہر قدم یہ سوچ کر اٹھا کہ منزل تک پہنچ کر دکھاؤں گا پہلی شادی جمائما خان سے کی جن سے دو بچے ہیں (سلیمان عیسیٰ خان اور قاسم خان)نتیجہ طلاق پر منتج ہوا۔ احباب سمجھتے ہیں کہ دونوں کی عمر میں واضح فرق اور انگلینڈ اور پاکستان کی معیار زندگی کے فرق نے اس طلاق میں اہم کردار ادا کیا دوسری شادی خاندان اور کچھ احباب کی مخالفت کے باوجود ریحام خان سے کی اور جلد ہی حقائق آشکار ہونے اور کچھ احباب کے خیال سے موت کے قریب سے واپسی پر راستے جدا ہوگئےاور پھر ان کی زندگی میں ایک دیندار شخصیت کی آمد نے عمران خان کی زندگی کے صبح و شام بدل دئیے۔ بشریٰ بی بی کے ساتھ نے عمران خان جیسے لاابالی اور دین سے نہ ہونے کے برابر واقفیت رکھنے والے شخص کو دنیا نے ننگے پاؤں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں گھومتے دیکھا۔ اور اپنی زندگی کو دین کی سمجھ اور ملک کی خدمت پر وقف کر دیا۔ سیاست میں پہلی دفعہ 2002 میں منتخب ہو کر رکن اسمبلی کا اعزاز پایا پھر سیاست کو اوڑھنا بچھونا بناتے ہوئے 2018 میں وزیراعظم منتخب ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں نے جینا دوبھر کر دیا جبکہ مجموعی طورپراپوزیشن کی تمام جماعتیں کرپشن کے الزامات کی زد میں تھیں۔ اتحادی بھی ایسے ملے جن کے ماضی کے بارے میں ناپسندیدہ کہانیاں زبان زدعام تھیں۔ ایسے میں حکومتی معاملات چلانے کے علاوہ ملک دشمن عناصر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ملکی معیشت کو بہتر بنانے جیسے مشکل مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنے چیدہ پرخلوص ساتھیوں کے ہمراہ پوری تگ و دو کر رہے ہیں کرونا وائرس کی موجودگی میں مہنگائی کا دیو بھی پنجرے میں بند کرکے 2023 کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کی خواہش کے ساتھ اپنی بھرپور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔عوام کی اکثریت جو مہنگائی سے سخت نالاں ہے اور کرپٹ اپوزیشن کا ساتھ دینے کی بجائے عمران خان کا ساتھ دینے پراس وجہ سے بھی مجبور ہیں کہ عمران خان کرپشن ، لوٹ مار، اقربا پروری سے پاک شخصیت ہے۔ اور قوم کی فلاح کے لیے پوری جان فشانی سے کوشاں ہے۔