Thursday, March 28, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزہمارا معاشرہ بے راہ روی کا شکار کیوں؟

ہمارا معاشرہ بے راہ روی کا شکار کیوں؟

تحریر: سلیم سجاول

@Sajawal_13

آج ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے بے راہ روی کی طرف گامزن ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری نوجوان نسل میں سے حیا کے تصور کوختم کرنا ہے۔ جب آپ کسی قوم میں سے شرم و حیا کے تصور کو مٹادیں گے تو وہ معاشرہ بہت آسانی کے ساتھ تباہ کیا جاسکتا ہے۔

اسلام کے مزاج میں شرم و حیاء ہے۔ حیا ہی وہ جوہر ہے جس سے محروم ہونے کے بعد انسان کا ہر قدم برائی کی طرف ہی اٹھتا ہے اور ہر گناہ کرنا آسان سے آسان تر ہو جاتا ہے۔ اور شرم و حیا کی موجودگی انسان کے لیے ایسی قدرتی اور فطری ڈھال ہے کہ جس کی پناہ میں انسان معاشرے کی تمام گندگیوں اور برائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ .

قرآن و حدیث میں بے شمار مقامات پر حیا اختیار کرنے کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے اور بے حیائی کی مذمت کی گئی ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: بے شک جو لوگ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے (النور 19)

اور فرمایا: بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا (الأعراف 28)

اور ساتھ ہی فرمایا: اے حبیب فرما دیجئے کہ میرے رب نے بے حیائی اور فحاشی کو حرام قرار دیا ہے (الأعراف 33)

نوجوان نسل کو حیا کا مطلب یہ سمجھایا جاتا ہے کہ نظروں میں حیا ہونا چاہیے۔ اس طرح انہیں حیا کے صحیح مفہوم سے غافل رکھا جاتا ہے؛ یہ کہہ کر انہیں ہر قید اور ہر حد سے آزادی کا پروانہ پکڑا دیا گیا ہے۔ پھر اب وہ جو چاہے کریں، اور جو چاہے سوچیں یا سمجھیں۔

جہاں حیا نہیں ہوتی وہاں ایمان نہیں ہوتا، حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے عین یہی بات ارشاد فرمائی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے حیائی اور بے پردگی بہت عام ہونے لگی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کل تو حیا والے شخص کو عیب دار، کنزروٹیو اور دقیانوسی خیالات کا مالک شخص سمجھا جاتا ہے؛ اور اگر کوئی عورت پردہ کرتی ہو تو لوگ اسے مذہبی جماعت  یا تنظیم کا کارکن سمجھنے لگتے ہیں۔ اسے سوالیہ یا مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جیسے یہ کوئی گناہ ہو۔

بعض اوقات تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں جس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہمارے قوانین گورے کے دیئے ہوئے معاشرے اور ان کے ماحول کے مطابق ہیں۔ لیکن پاکستانی معاشرے پر گورے خاندانی قوانین کو لاگو کرنا جس کے لئے ہمارا معاشرہ تیار نہیں ہے۔ غلط ہے لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی قانون برا نہیں۔ آج سے چند دہائیاں قبل تک ہمارا معاشرہ میں یہ بے راہ روی نہیں تھی۔

معاشرے میں بے حیائی عام کرنے کا سب سے بڑا سبب میڈیا میں دکھائے جانے والے ڈرامے اور اشتہارات ہیں جن کے ذریعے غلط باتوں کواس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ وہ صحیح معلوم ہوتی ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے ہمارے معاشرے نے اپنی تہذیب کو چھوڑ کرپڑوسی ممالک کے کلچر کو اس قدر اپنالیا ہے کہ اب ہمارے اور ان کے میڈیا میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا کیونکہ اب ہمیں اپنے ڈراموں اور فلموں میں ان کی ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے۔ اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فَروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی ”تیزترین“ ہے۔

یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خَصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حیا کو مُتأثّر کرنے والے تمام عَوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتَشَخُّص اور روحِ ایمان کی حفاظت کی جائے

ہماری نوجوان نسل میں اخلاقی اقدار کے اس قدر زوال کی مزید وجوہات طبقاتی تقسیم، جنسی بے راہ روی، مخلوط نظام تعلیم، اخلاقی تربیت کی کمی، مناسب رہنمائی کا فقدان وغیرہ ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی اقدار سے دور لے جا رہے ہیں جو کہ پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

ان سب خرابیوں کے باوجود مایوس ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آج بھی اگر ہم قرآن وسنت کا دامن تھام لیں، اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں اور اپنے اسلاف کی شان دار اخلاقی روایات پر چلیں تو اس اخلاقی زوال سے بچا جا سکتا ہے۔

اگر سنجیدگی سے اس معاملے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے کچھ اقدامات اٹھائے جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم دوبارہ اس اخلاقی سطح پہ پہنچ جائیں کہ جس پر ہمارے اسلاف عمل پیرا تھے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں نہ صرف اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے بلکہ اس سلسلے میں نصاب کو از سرنو مرتب کیا جائے اور عوام میں آگاہی پھیلائی ہے۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو انسان ایک بار پھر انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔