Thursday, March 28, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگز‏ ‏معاشرے میں پھیلتی جنسی بے راہ روی اور ہماری بے بسی

‏ ‏معاشرے میں پھیلتی جنسی بے راہ روی اور ہماری بے بسی

تحریر: محمد اشفاق حسن
@sd2ge
مجھے یاد ہے جون کا مہینہ تھا اور صبح ہی سے حبس تھا ہم نے فیصلہ کیا کہ آج بچوں کو سکول نہیں بھیجتے بس تو لگے بچوں سے گپ شپ کرنے ننھے فرہاد نے کہا وہ جو ہمارے چپڑاسی انکل ہیں وہ بہت اچھے ہیں ہمیں ٹافیاں بھی دیتے ہیں اور کبھی کبھی چیز لینے کے لئے پیسے بھی، میرے دماغ کی ساری گھنٹیاں بج اٹھیں اور غصہ اتنا کہ سب گھر والوں کو بلا وجہ ڈانٹنے لگ گیا، گھر کے سب افراد حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے وہ ابھی تک معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ سکے تھے اور میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی بالآخر میں نے فیصلہ کیا اور اپنے 6 سالہ فرہاد کو لے کر سکول چلا گیا پرنسپل کو ساری صورتحال بتائی، پرنسپل نے شاید میری جذباتی حالت کو بھانپ لیا تھا انہوں نے باقی سب مہمانوں سے معذرت کی اور مجھے ساتھ لے کر دوسرے کمرے میں چلے گئے ٹھنڈا پانی پلایا میں نے پھر سے ساری بات بتائی اور بچوں کے غیر محفوظ ہونے پر فکر مندی کا اظہار کیا لیکن پرنسپل صاحب نے اس چپڑاسی کی عمر اور بظاہر کردار کی وجہ سے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی مجھے نہ جانے کیوں کسی بھی بات سے تسلی نہیں ہو رہی تھی، میں سکول سے رخصت ہوا تو فرہاد کو گھر پر چھوڑا اور اس چپڑاسی کے محلے چلا گیا اور اس کی چھان بین میں لگ گیا تو کچھ اور لوگوں نے بھی اس قسم کی شکایات کا دبے لفظوں میں اظہار تو کیا لیکن کھل کے کوئی بھی سامنے نہیں آنا چاہ رہا تھا خیر میں نے فرہاد کا سکول تو تبدیل کر دیا اور کچھ بھی نہ کر سکا، میں شاید اس کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا، کچھ دنوں کے بعد وہی پرنسپل صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے سر شاید آپ کا شک درست تھا اس دن کے بعد میں نے اس چپڑاسی پر خاص نظر رکھی اور اس طرح بچوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا ہے، مگر میں اس کی ان حرکات سے اس کی نیت کو نہیں بھانپ سکا، ہمارے معاشرے میں بچوں سے محبت کے اظہار کو برا نہیں سمجھا جاتا اس لئے میں آج تک کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی کرنے سے قاصر رہا اور قاصر ہوں۔
ہمارے معاشرے میں اس قسم کے کردار عام طور پر پائے جاتے ہیں جو بظاہر بہت پارسا محبت اور تعاون کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر کی خباثت کوئی نہیں جانتا ہم بظاہر ان کے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہو کر ان پہ اندھا اعتماد کرنے لگ جاتے ہیں اور آخر کار اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، اگر کہیں ہمیں کسی کا کردار مشکوک بھی نظر آئے تو بھی ہم اس لئے نظر انداز کر جاتے ہیں کہ میرا یا ہمارا کیا لینا دینا ہے کنارہ کرکے نکل جاتے ہیں اور معاشرے میں پلنے والے ناسور کو دانستہ پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتے ہیں،
یاد رکھیں برائی تب برائی نہیں بنتی جب ہم خود ہا ہمارے معصوم بچے اس سے متاثر ہوں بلکہ برائی ہر وقت ہر کسی کے لئے برائی ہونا چاہیے، معاشرے میں پھیلتی ہر گندگی کے بطور شہری ہم ذمہ دار بھی ہیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کرکے برابر کے قصور وار بھی ہمیں اگر ان جنسی درندوں سے اپنی اولادوں کو بچانا ہے تو پورے معاشرے کو ایسے لوگوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مل کر حکمت و دانائی سے مگر بغیر کسی رغبت و رعایت ان کے خلاف باقاعدہ طور پر تحریک کی صورت میں جدوجہد کرنا ہوگی اور معاشرے میں پنپتے ایسے عناصر کا قلع قمع کرنا ہو گا
مجھے تو ایسےکرداروں سے بہت ڈر لگتا ہے میں محتاط رہنے کی کی کوشش بھی کرتا ہوں اور بچوں کو بھی کچھ ہدایات دے رکھیں ہیں کہ ان جیسے لوگوں سے کسطرح بات کرنی ہے اور کسطرح محتاط رہنا ہے،، ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں
مگر معاشرتی اقدار کا لحاظ ہماری راہ میں رکاوٹ ہے،
ہم آج تک پریشان ہیں کہ ان معصوم بچوں کو ان جیسے جنسی درندوں سے کس طرح محفوظ رکھیں،، ہم اپنی آئندہ نسل کی کیسے حفاظت کریں اور کس طرح سے اپنے معاشرے سے اس گندگی کو صاف کریں آئیں مل کر سوچیں اور مل کر کام کریں کہ یہ ہم سب کا معاشرہ ہے اور ہماری پہچان ہے۔۔