Friday, March 29, 2024

شاہی شادی

‏تحری:سید لعل حسین بُخاری
‎@lalbukhari
آج کل مریم صفدر کے بیٹے جنید صفدر کی شادی کے خوب چرچے ہیں چرچے کیوں نہ ہوں؟
یہ شادی لندن کے مہنگے ترین ہوٹل میں جو ہورہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز کی اپنی تو لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں،مگرممتا کی ماری ماں نے اتنی غربت کے باوجود بیٹے کی شادی کو ایک رائل فیملی کی شادی میں تبدیل کرکے ماں کی بیٹے سے محبت کی انوکھی تاریخ رقم کر دی ہے شریفوں کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا موقع آیا ہوجب انہوں نے معاملے کو سیاسی رنگ دے کر ہمدری بٹورنے یا سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کو شش نہ کی ہو۔
اس میں خوشی اور غم ہرقسم کے مواقع شامل ہیں۔
یہ سفرمرحومہ بیگم کلثوم نوازکی وفات سے شروع ہوا اور جنید صفدر کے نکاح تک کامیابی سے جاری ہے۔
جنید صفدرکے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہ اس ماں کا بیٹا ہے جس نے اپنے والد کا نام اس لئے لگا رکھا ہے کہ اس سے کچھ سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے۔
تو گویا نام کے ساتھ ابا کا نام بھی ایک سیاسی کارڈ ہے،
جسے کھیل کر کچھ سیاسی مفادات کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے۔
جنید صفدر کی شادی کے کارڈ میں بھی مریم صفدر نے روایتی طور پر اپنا نام اپنے خاوند کے ساتھ منسوب کرنا مناسب نہیں سمجھا،
حالانکہ ایسے کارڈز پر روایتی طورمسٹر اینڈ مسز کی ہی اصطلاع استعمال ہوتی ہے۔
مگر یہاں بھی سیاسی فائدہ یا تکبر آڑے آیا۔
اسی کارڈ میں دلہن کے والد سیف الرحمن اور ان کی بیگم کا نام مسٹر اینڈ مسز کے طور پر ہی درج ہے۔
جونہی اس شادی کے کارڈز تیار ہوئے،مریم بی بی کی طرف سے کارڈ کے فوٹو کے ساتھ ٹویٹ کر کے اپنے آپ کو بطور ایک ایسی مظلوم عورت کے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جو دکھوں کی ماری ہو،جس کے بیٹے کی شادی اس سے دور کسی دوسرے اجنبی ملک میں کی جا رہی ہو۔
دولہا کی ماں پاکستان میں ہے،والد پاکستان میں ہے،تو پھر شادی وہاں کیوں؟
صرف اور صرف سیاسی سٹنٹ!
کل ن لیگ کے ایک رہنما عطا تارڑ اینکرکاشف عباسی کے پروگرام میں کہہ رہے تھےکہ یہ شریفوں کی چوائس ہے کہ وہ جہاں مرضی شادی کریں!
شریفوں کی چوائس کا سب کو پتہ ہے۔
رہنے کے لئے ان کی چوائس لندن
کاروبار کرنے کے لئے ان کی چوائس لندن
مال و زر جمع کرنے کے لئے ان کی چوائس لندن
علاج کرانے کے لئے ان کی چوائس لندن
حتی کہ شادیاں کرنے کے لئے چوائس لندن
مگر حکمرانی کرنے کے لئے چوائس پاکستان
جی ہاں اقتدار کے ذریعے اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے چوائس پاکستان۔
مریم نواز اپنے آپ کو پہلے بطور مظلوم بیٹی کے کیش کرانے کی کوشش کرتی رہی،اب اس شادی کے ذریعے وہ اپنے آپ کو بطور ایک دکھیاری،غموں کی ماری،مظلوم ماں کے طور پر کیش کرارہی ہے۔ لوگوں کو شادیوں میں سلامی ملتی ہےشریف ایسے موقعوں پر ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مریم کو تو اپنی قسمت پر رشک کرنا چاہیے کہ جس سزایافتہ خاتون کو جیل میں ہونا چاہیے،وہ باہر رہ کر ریاستی اداروں کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے۔
اپنی اس خوش بختی پرانہیں نازاں ہونا چاہیے کہ ہمارا نظام ہمیشہ ان کی سہولت کاری کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ پاکستان میں اتنی رعایت کسی اورکوحاصل نہیں،جتنی شریف خاندان کو حاصل ہے۔ پھر بھی ہروقت مظلومیت کارڈ ان کا سہارا ہوتا ہے بیگم کلثوم کو لندن علاج کے لئے اپنی مرضی سے لے جایا گیا۔ وہاں ان کی وفات ہو جانے پر واویلا کچھ اس انداز سے کیا گیا کہ تاثر کچھ یوں ملے کہ اس خاندان کے ساتھ پر بہت بڑا ظلم ہو گیا ہے۔ اس خاندان پر رنج والم کے پہاڑٹوٹ پڑےہیں اوراس کے پیچھے ہماری سیاسی قیادت اور ریاستی ادارے ہیں۔ اتنی ڈھٹائی کے ساتھ آنسو بہائے جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا اداکار بھی شرما جائے۔
لندن ان کی اتنی زیادہ چوائس ہے کہ وہاں کا ہوم ڈیپارٹمنٹ نوازشریف کے ویزے کی معیاد میں توسیع مسترد کرکے دھکے ماررہا ہے کہ میاں صاب،اللہ دا ناں جے،چلے جاؤ جبکہ تین دفعہ کے وزیر اعظم میاں نواز شریف صاب مسلسل ان کے پاؤں پڑے ہوئے ہیں کہ خدارا زندگی کے باقی دن آپ کی چھتر چھایا میں گزارنا چاہتا ہوں،مینوں ایتھے ای رہن دیو پلیز!
ہاں کبھی پاکستانی عوام کو اک واری فیر شیر کہہ کر بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو گیا تو وزیراعظم بن کر چلا جاؤں گا مگر صرف 5سال کے لئے۔ اس کے بعد آپس لندن ضرور آؤں گا،کیونکہ ہمارا مستقبل تو لندن سے ہی وابستہ ہے ہمارا جینا مرنا تو اب گوروں کے خوبصورت دیس ہی میں ہے۔ جہاں ہم اپنی بزنس ایمپائر قائم کرچکے ہیں۔میاں صاب لندن رہنے کے لئے جو بھی ترلے منتیں کر رہے ہیں،اُن کے پیچھے کورونا کارڈ،بیماری کارڈ ،انسانی ہمدردی کارڈ اور مظلومیت کارڈ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ شریف خاندان نے لندن کو نہ صرف اپنی رہائش گاہ بلکہ علاج گاہ بھی بنار کھا ہے۔ اپنے تیس سالہ اقتدار میں یہ لوگ پاکستان میں ڈھنگ کا ایک ہسپتال بھی نہیں بنا سکے جہاں ان کا علاج ہو سکے۔
بیگم کلثوم نواز علاج کے لئے وہاں گئیں،جہان ان کا انتقال ہو گیا
ان کی میت کے ساتھ نہ شوہر آیا اور نہ بیٹے۔ شوہر ویسے ہی عدالتوں سے بچنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ بیٹوں کے لئے والدین کی خاطر دولت کی قربانی دینا مشکل۔ وہی دولت جو ان کے والد نے ان کے لئے قومی خزانہ لوٹ کر اکٹھی کی۔ آج اسی دولت کی خاطر بیٹےوالدین کی خاطر ملک واپس آ کرجیل کاٹنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ شریف خاندان کے لئے بہت بڑا مکافات عمل ہے کہ جس دولت کے لئے انہوں نے سب کچھ کیا،آج اسی دولت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔
کس کام کی ہے وہ دولت،جو عزت مٹی میں ملا دے۔ کس کام کی ہے وہ دولت جو آپ کو اپنے ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دے۔ کیا کرنا اس دولت کا کہ جس کو بچانے کے لئے بیٹی کو سیاست کے پُر خار میدان میں اتار دیں کہ شاید یہ عورت کارڈ اور مظلومیت مل کر دوبارہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دے۔
اقتدارمیں رہنے کے لئے شریفوں نے جو سب سے گھٹیا کارڈ استعمال کیا،وہ پنجابی کارڈ تھا۔یہ لوگ اپنے سیاسی فائدے کے لئے اب بھی جب موقع ملے اس کارڈ کو ضرور استعمال کرتے ہیں۔
جاگ پنجابی جاگ،تیری پگ نوں لگ گیا داغ
جیسی بولی لگوا کر اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ کئی دفعہ مذہبی کارڈ بھی کھیل چکے ہیں حالانکہ ان کا مذہب صرف دولت کا جائز ناجائز حصول ہے۔ نواز شریف تو بذات خود اس معاملے میں دو قدم اور آگے اس وقت چلے گئے جب اس نے کہا کہ ہندووں کا اور ہمارا رب ایک ہے،ہمارا اور ہندووں کا کلچر اور رہن سہن ایک ہے۔
اگر ہمارا اور ہندووں کارہن سہن ایک جیسا ہوتا تو یہ نعرہ حصول پاکستان کی بنیاد کبھی نہ بنتا کہ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لاالہ الا اللہ