Thursday, April 25, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزغیرت کے لبادے کی واپسی کیسے ممکن؟  

غیرت کے لبادے کی واپسی کیسے ممکن؟  

حمیرا الیاس
@humma_g

ہر روزایک نیا قصہ، اک نئی کہانی سامنےآتی جس میں مرد کی ہوس کا شکارخاتون روتی دھوتی چیختی چلاتی ہے لیکن پھر راوی چین ہی چین لکھنے لگتا ہے۔ چند دن تو خوب پھرتیاں نظر آتی ہیں نوٹس لئے جاتے ہیں وقت کی گرد اسے ڈھانپ لیتی ہے ۔قرار واقعی سزا کےلئے اتنا لمبا اور پیچیدہ سلسلہ ہےکہ بندہ دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے مگر مقدمہ چلتا رہتا۔ کیایہ سب کچھ نیا ہے؟ یا پہلے بھی ہوتا تھا؟ اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیوں عورت کو کھلونا سمجھ لیا گیاہے؟ اس کی تفصیل میں جائیں تو بہت تلخ حقائق سامنے آتے ہیں لیکن کیا کریں سچ ہمیشہ کڑوہ ہوتا ہے۔

سب سے پہلاسچ یہ ہے کہ ہمارے گھروں کا نظام اسلامی طرز پر نہیں ہے۔ ایک ہی چھوٹا سا گھر، جس میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک سے زیادہ خاندان ایک ساتھ رہتے ہیں سیاست اس طرح چلتی کہ گھر میں جس کااثروسوخ زیادہ اسی کی فیملی کو ہرقسم کی آزادی ہوتی۔ یہاں تک تو ٹھیک لیکن جبکہ اسلام میں دیور جیٹھ نندوئی سب سے پردہ کا حکم تو ایک ہی چھت کے نیچے سب اکٹھے رہتے، اور بالعموم ہنسی مذاق ہلا گلا سب ہو رہا ہوتا۔ وہ جوشرم وحیا کاتصورکسی زمانے میں ان رشتوں میں رہتا تھا سب وہ مفقود ہوتا ہےایسے گھروں میں جنسی تعلقات اور ایسے معاملات بہت جلد بچوں پر آشکار ہو جاتے اوروہ جلد میچور ہونے لگتے۔

اس کے علاوہ بچوں کی تربیت جو ماں کاکام ہے،اکثر بڑی بڑی فیملیز وہ پورا دن مصروف رہتی ہیں اور اس طرح بچوں کی تربیت نہیں ہوپاتی ہے وہ خودرو جھاڑیوں کی طرح بڑھنے لگتے ۔ جب ماں باپ دونوں کے پاس وقت نہ ہوتو تربیت کا سب سے اہم کام سب سے آخرمیں چلاجاتا ہے اکثر دیکھا گیا کہ اوائل عمرمیں ہی بچوں کی دوستیاں بڑے لڑکوں سے ہو جاتیںاور یوں جنسی تعلقات کے چسکے لینے کی عادت جڑ پکڑنے لگتی اکثر بچے پیغامات کی ترسیل کا ذریعہ بنتے اس فعل کو غیرمعیوب سمجھنے لگتے اور یوں جنسی بے راہ روی پھلنے پھولنے لگتی ہے ۔ بلاوجہ آتے جاتے خواتین پر آوازے کسنا، معمول بن جاتا ہے اورپھر بات آگے بڑھتے ہوئے دونوں کے نظروں کے تبادلے سے ہوتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے اور پھر وہ ہوتا ہے جو آج معاشرے میں نظرآرہا ہے۔

ایسی باتیں کھلنے پراکثرمائیں یقین کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتیں، انہیں لگتا ہے کلموہی نے ان کے معصوم سے لال کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ بیٹا کیوں گلی کی نکڑ پر کھڑا رہتا تھا اس بارے میں جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسے کھلی چھوٹ کیوں دی گئی اور اگر ابتدا میں ہی اس کی روک تھام کردی جاتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اس معاملے میں لوگوں کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب پانی سر سے گزرچکا ہوتا ہے اور معاملہ ناقابل اصلاح ہوجاتا ہے۔

پہلے کبھی کوئی بھی بڑا کسی کی بیٹی کے ساتھ کچھ غلط ہوتے دیکھتا تو وہی مداخلت کرکے معاملے کو سدھارلیتا لیکن اب ہم پریکٹیکل ہوگئے ہیں اب سب کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی آنکھیں موند لیتے ہیں کہ کیوں کسی پرائیویسی میں دخل دیں۔

ہم چھوٹے تھے تو سامنےبھینسوں کاباڑا تھا ، ہم سب اس کے مالک کو میاں جی کے نام سے پکارتے تھے جب عمر چھ برس ہوئی توانہوں نے منع کردیا کہ بیٹا یہاں مت آنا دودھ گھر پہنچ جایا کرے گا۔ تب سمجھ نہیں آیا تھا کہ میاں جی نے منع کیوں کیا ۔ آمین بھائی ان کے بیٹے تھے ہمارے گھر کی نکڑ پر کسی کو کھڑے نہیں ہونے دیتے تھے کبھی کسی نے دیکھتے تو اپنے ڈیرے پر لے جاتے کہ یہ باجیوں کا گھر ہے، زیب نہیں دیتا ادھر ہم کھڑے ہوں اور ان کی عزت پر کوئی بات کرے۔یہ اس وقت کے ہمسائے تھے۔

شام کوہم سب گھروں کے بچے باہر کھیلتے،بابا جمال خان، نیلی پری لال پری، اسکا تالا توڑیں گے۔۔ لیکن سامنے والوں کے یوسف بھائی کے آنے کاوقت ہونا تو سب گھروں میںپتا تھا بھائی ڈانٹیں گے کہ اتنی شام سب باہر کیوں ہیں اس وقت نہ امی ابو اور نہ محلے کے افراد نے یوسف بھائی سے جھگڑا کیا کہ بھائی تو کون ہے ہمارے بچوں کو ڈانٹنے والا۔ بلکہ وہ فخر سے کہتے دیکھو کتنے بھائی ہیں جو تمھارا دھیان رکھتے ہیں۔ اب اگر کوئی سگا بھی کچھ کہہ دے تو والدین کہتے ہیں ہمارے بچوں پر تنقید نہ کرو۔ اس روش نے ہمارے معاشرے کوتنزلی کی جانب گامزن کردیا ہے۔ شادیوں میں سر پر دوپٹہ رکھے بنا ماموں،چچا، تایا، خالو سے پیار لینا معیوب سمجھا جاتا تھا اب اس میں رقص کی مشترکہ پارٹیاں رکھی جاتی ہے کیونکہ غیرت کا لفظ ہم دقیانوسی کے ہم پلہ ہوگیا۔

آج صورتحال بدل چکی ہے آج کی ماں گھرگرہستی میں طاق ہوکر ایک بہترین خاتون خانہ اور ایک اچھی بہوتو بن گئی ہے لیکن اس نے بچوں کو اچھی تربیت دینے کے سب سے اہم کام کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ جبکہ باپ پیسہ کمانے کی دوڑ میں اتنا مگن ہے کہ اسے پتہ نہیں اس کا کمایا گیا پیسہ کدھر خرچ ہورہا ہے۔ ماں باپ کی شفقت سے محروم بچے محبت ڈھونڈے کے چکر میں غلط جگہ پھنس جاتے ہیں اس پر ستم آج کل کی ٹیکنالوجی نے ڈھایا ہے ۔آج انٹرنیٹ پر وہ سب دستیاب ہے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں جاتا تھا آج کے بچے فحش فلمیں دیکھ کر وقت سے پہلے جوان ہورہے ہیں نوعمرلڑکے لڑکیاں یہ دیکھ اس کا عملی تجربہ کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور پھر بے حیائی کی اس راہ کی چلے جاتے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ نہیں سوجھتا۔

پہلے تعلیم کو فوقیت تھی انہیں بتایا جاتا تھا کہ اچھی تعلیم سے اچھی نوکری ملے گی تو نیک سیرت بیوی کا سکھ پاوگے لیکن آج ان کے ذہن میں یہ بٹھادیا گیا ہے کہ پیسہ کماؤگے تو اچھی لڑکی سے شادی کرسکو گے ۔ اسی پیسہ کمانے کی دھن میں اب انہوں نے وہ راستے بھی چن لئے جو سراسر بے حیائی ہیں۔ آج کی موبائل ایپلیکشنز ٹک ٹاک ، لائیکی اور سنیک وغیرہ نے جوان ہوتی نسل کو پیسے کمانے کا آسان راستہ دکھایا ہے جس میں پیسہ تو آسانی سے آتا ہے ساتھ شہرت بھی ملتی اور راتوں رات سلیبریٹی کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر اس کے لئے اپنی اخلاقیات کو تباہ کربیٹھے ہیں اور جب تک انہیں احساس ہوتا ہے پانی سر سے گزرچکا ہوتا ہے۔

کوئی بھی ٹیکنالوجی غلط نہیں ہوتی ۔ اصل چیز اس کا درست استعمال ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے یہ ایپلیکیشن غلط ہیں ہاں اس کا استعمال غلط ہورہا ہے اس کا استعمال ہم تعلیم اور تربیت کے فروغ کیلئے کریں یہ معاشرے کو سدھارنے میں بہت زیادہ معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

اب بھی وقت نہیں گزرا آج بھی معاشرے میں سدھار لایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے ہمیں اپنی اخلاقی اقدارکی جانب بھی واپس لوٹنا ہوگا ماں اپنی پہلی ترجیح بچوں کی تربیت قرار دے اور باپ اپنے کمائے ایک ایک پیسے حساب رکھے تو وہ ہماری اگلی نسل ایک بہترین نسل بن کر سامنے آسکتی ہے۔ یہ ایک صبرآزما کام ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ قوم ترقی کرتی ہے جو آزمائش کی چکی سے ہوکر نکلتی ہے۔

اور سب سے اہم بات بچے کی غلطی کو نفرت کی بجائے محبت سے سدھارنے کی کوشش کریں ۔ پیرینٹنگ آج وقت کی ضرورت ہے اس جانب بھی ہمیں سوچنا چاہئے کیونکہ اس طرح ہی ہم اپنے معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بناسکتے ہیں غیرت کا وہ لبادہ دوبارہ پہن سکتے ہیں جسے ہم نے اتار پھینکا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔