Thursday, April 25, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزریکوڈک اور پاکستان کا معاشی مستقبل

ریکوڈک اور پاکستان کا معاشی مستقبل

تحریر: حمیرا الیاس
@humma_g
ریکوڈک، پاکستان میں، چاغی کا ایک نواحی قصبہ ہے جونوکنڈی سے ستر کلومیٹر کے فاصلہ پر پاکستان کے افغانستان اور ایران کی سرحد کے ساتھ واقع ہے. پاکستانی صحرا کا یہ حصہ قدرتی دولت سے مالامال ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی سونے اورتانبے کی کان واقع ہے. اس جگہ پر موسمی حالات انتہائی شدید ہونے کی وجہ سے آبادی بہت کم ہے اور وسائل ناکافی یہ علاقہ ٹیتھیان بیلٹ میں آتا ہے جو آتش فشاؤں کی ایک بیلٹ ہے جوہنگری سے شروع ہو کر ترکی، ایران، انڈونیشیا اور نیوگنی تک پھیلی ہوئی ہے. پاکستان کے مقام ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کا تخمینہ تقریبا” 5 ارب 90 کروڑ ٹن تک لگایا گیا ہے۔
ریکوڈک کا معاملہ تب سامنے آیا جب اگست 2010 میں تیتھیان کارپوریشن کمپنی نے بلوچستان کے کان کنی کے قوانین کے تحت بلوچستان کی مقامی حکومت سے کان کنی کے آغاز کی باضابطہ اجازت طلب کی جسے نومبر 2011 میں بلوچستان حکومت کی طرف سے انکار کردیا گیا۔ ٹیتھیان کمپنی نے اس معاملہ کو بین الاقوامی عدالت میں اٹھایا اور معاملہ پیش کیا کہ 1998 میں بلوچستان کی مقامی حکومت سے معاہدہ کے بعد کام کا، آغازکیا اور منصوبے ہر اب تک کئی ملین روپے کی لاگت خرچ آچکی، اس مقام پر لیز کی اجازت نہ ملنے سے جو نقصان ہوا اسے حکومت پاکستان کو ہرجانے کے طور پر ادا کرنا چاہئے 2012میں عالمی بنک میں گئے آسٹریلین کمپنی کے اس کیس کے حق میں 2017 میں پاکستان کو، جرمانہ دینے کا پابند کیا گیا جس میں منصوبے کی ابتدائی لاگت کے ساتھ ساتھ اندازا” 2010 سے کیس کا فیصلہ ہونے تک کمپنی کو اخذ کردہ ذخائر سے جو ممکنہ فوائد ملتے ان کی رقم بھی بطور ہرجانہ پاکستان کو ادا کرنا پڑتی اس کے ساتھ بیرون ملک روزویلٹ ہوٹل کے کیس کو بھی ریکوڈک کے کیس سے منسلک کر دیا گیا اور پی آئی اے سے اس پراپرٹی کے بعوض پچیس فیصد رقم کی بینک گارنٹی اور لیٹر آف کریڈٹ مانگا گیا، متعلقہ تاریخ تک ہر دو دستاویز جمع نہ کرائی اور یوں پاکستان کو روز ویلٹ ہوٹل لندن اور سکرب ہوٹل پیرس کے کچھ حصے سٹیٹ کو ٹرانسفر کرنے کا آرڈر آیا 2020 میں ٹی تھیان کمپنی نے دوبارہ مذاکرات شروع کئے گئے اور اس دوران پاکستان پہلے ہی جرمانے ختم کرنے کی درخواست جمع کروا چکا تھااب ان مذاکرات کی حتمی شکل میں حکومت پاکستان کو نہ صرف جرمانہ ختم کرنے کی نوید دی گئی، بلکہ جو شئیر پہلے صرف 25 فیصد تک ملنے کا معاہدہ تھا اب 50 فیصد تک ملنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس تمام ضروری کیس سٹڈی میں کچھ بنیادی باتیں بہت تکلیف دہ اور توجہ طلب ہیں
نمبر ایک، 1998 میں مقامی حکومت سے ایک بین الاقوامی کمپنی کان کنی کی اجازت طلب کرتی ہے، جو مل جانے ہر اپنا تمام ضروری سازوسامان وہاں فکس کرکے بارہ سال ابتدائی کام کرتی ہے جس سے لوکل آبادی کو بھی روزگار ملتا اور پاکستان کی معیشت کے لئے بھی کچھ خوش آئند امکانات نظر آتے، لیکن ہماری تب کی حکومتیں اس پر کوئی ایکشن لیکر اس معاشی ترقی کے منصوبہ کو پاکستان کے بہتر مستقبل کی خاطر، قومی سطح پر ایک متفقہ رائے پر نہ پہنچ سکیں، اور سب سے اہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے 2013 جس میں یہ موقف دیا گیا کہ مقامی حکومت نے خود سے یہ اجازت نامہ دیکر اپنی حدود سے تجاوز کیا مان لیجئے کہ مقامی حکومت نے حدود سے تجاوز کیا تو تجاہل عارفانہ تو حکومت پاکستان کا بھی ہوا کہ 12 برس ایک کمپنی آپ کے ملک میں کام کررہی ہے اور آپ تب بےخبر رہے، اب غلطی اگر مقامی حکومت کی تھی تو وفاق اسے بہتر انداز میں اسی وقت بروقت مداخلت سے حل کرتی تو معاملہ بین الاقوامی کورٹ تک نہ جاتا وہ پیداوار جو آج سے 10 سال پہلے ہمیں حاصل ہونا شروع ہوجاتی تو آج ہماری معاشی حالت کس جگہ پر ہوتی، لیکن ہمارے حکمران اور بیوروکریٹس کی خودغرضیوں کی بھینٹ پاکستان کے مستقبل کو داؤ پر لگایا گیا۔
نمبر دو ۔ مقامی حکومتوں اور مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود پرعدم توجہی ایک بہت بڑی وجہ ہوسکتی ہے اگر پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بھی سہولیات بہم پہنچائی جاتیں تو اس علاقے اور یہاں کی کانوں سےنکلنے والے پتھروں کی قیمت کیا ہے تو شاید مقامی حکومت کوئی بھی ملکی بقاء سے وابستہ منصوبہ بارے وفاق کو ضرور اعتماد میں لے کر اسی وقت بہتر معاہدہ کرتے لیکن وفاق، صوبے اور مقامی حکومتوں کے آپس کے اس کمیونیکیشن گیپ کا فائدہ بہرحال دوسروں نے اٹھایا اور پاکستان کے حصے میں نقصان ہی آیا افسوس نقصان پہنچانے والوں کو مسلسل ریلیف دیا جارہا ہے۔
نمبر تین ، جو سب سے اہم ہے جبکہ ٹیتھیان بیلٹ میں موجود سونے کے ذخائر 1978 میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سربراہی میں چاغی پر ریسرچ کے دوران دریافت ہوچکے تھے، تو 20 برس میں پاکستان کی کسی ایک بھی حکومت نے ایسے جیالوجسٹ، منرالوجسٹ، اور مائن ڈیویلپمنٹ ڈائریکٹر کیوں مقرر نہیں کئے کہ ہم اپنی ہی افرادی قوت کو اتنے بڑے منصوبہ کی کھدائی ہر لگاتے کہ کوئی باہر کی کمپنی ہمارے سارے اثاثوں کی مالک بننے کو تیار ہوجاتی۔
امر ضروری ہے کہ اگر کسی وکیل کی نااہلی یا جس بھی حکومتی اہلکار کی نالائقی کی وجہ سے پاکستان کو ہزیمت اٹھانا پڑے، اس شخص کے اثاثے قرق کرکے پاکستان کونقصان پہنچانے کا ازالہ کیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے پاکستانی عوام کے سکھ چین سے کھیلنے کی مزموم کوشش نہ کرسکے امید ہے کہ اب اس کیس میں درست سمت کے تعین کے بعد جلد از جلد پاکستان کے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے تمام خواب شرمندہ تعبیر ہوں، اور ہم اپنے ملکی وسائل کو نکالنے اپنے بازوں پر بھروسہ کریں گے ۔
پاکستان زندہ باد

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔