Friday, March 29, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزسیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

تحریر : جاوید اکرم ملک
اب جبکہ فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا ہے کہ عمران خان وزیراعظم رہ پائیں گے یا نہیں تو پھر اس پر ہاہا کار مچانے اور آستینیں چڑھا کر حکومت اور اپوزیشن کا ایک دوسرے کو للکارنا دونوں طرف سے غیر جمہوری رویوں کا عکاس ہے.اپنی اپنی جگہ دونوں فریق پریشان دکھائی دے رہے ہیں، وزیراعظم کو یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد بری طرح ناکام ہو گی اور وہ اس منصب پر بحال رہ کر سابق صدر آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو اپنے نشانے پر رکھ لیں گے، اس کا برملا اظہار عمران خان جلسوں میں کر رہے ہیں، دوسری جانب اسپیکر پنجاب اسمبلی رہنما ق لیگ چوہدری پرویز الٰہی نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں بتایا کہ اپوزیشن کے پاس مطلوبہ تعداد سے بھی زیادہ ارکان ہوں گے، اب اگر ق لیگ اور ایم کیو ایم جیسے اتحادیوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو اسمبلیاں مدت ضرور پوری کریں گی لیکن عمران خان پھر کنٹینر پر چڑھ گئے تو سیاسی عدم استحکام کا اندیشہ خارج از امکان نہیں عدم اعتماد کے حوالے سے بحث اس وقت ذرائع ابلاغ کا سب سے اہم اور نمایاں موضوع ہے، زوردار تجزیوں کے ذریعے فریقین کے حامی پیراشوٹ اینکرز اور اپنے تئیں بزرجمہور اپنے اپنے فریق کی کامیابی کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں، یہ ایک ایسا بے مقصد شور ہے جس میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری میں ابھی کافی دن باقی ہیں لیکن میڈیا اس کا فیصلہ پارلیمنٹ سے باہر اور فوراً کرنے پر تلا ہوا ہے.اگر ہم غیر جانبدار ہو کر صورت حال کا جائزہ لیں تو اس معاملے کے بہت سے پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کے ذریعے کئی مثبت چیزیں سامنے آسکتی ہیں، مثال کے طور پر اپوزیشن آج بھی یہ الزام واپس لینے کے لیے تیار نہیں کہ عمران خان کی کامیابی میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا، دوسری طرف عمران خان کا اصرار ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف عوامی حمایت کے بل بوتے پر پر اقتدار میں آئے ہیں اور اپنا یہ مقصد حاصل کیے بغیر جانے والے نہیں.سیاسی پرندوں کی اپنے اپنے گھونسلوں میں واپسی اپوزیشن کے اس یقین کی مظہر ہے کہ وزیراعظم عمران خان اب تنہا ہو چکے ہیں، ہئیت مقتدرہ اب نیوٹرل رہے گی، اس سوچ کے پیچھے وہ ذہن ہے جو اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا آرزو مند ہے، اس کے پاس مہنگائی کے سوا کوئی دوسرا ایشو نہیں، لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے اس موقف کی تائید کرتی ہے کہ ملک پر بیرونی قرضوں میں کے بوجھ میں اضافہ کرنے والوں کو مبینہ لوٹ مار کا حساب دیے بغیر دوبارہ اقتدار میں آنے کا کوئی حق نہیں، اب اس بات کا جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں کہ قرضے تو موجودہ حکومت نے بھی لیے ہیں، بالکل درست بات، قرضے لیے گئے لیکن ان قرضوں کا بڑا حصہ پچھلے قرضوں کے سود اور قسطوں کی ادائیگی پر خرچ کیا گیا، ہاں البتہ اگر موجودہ حکومت نے کوئی لوٹ مار کی ہے اور اپوزیشن کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لایا جانا چاہیے.بادی النظر میں لگتا یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی اور نہ صرف وزیر اعظم عمران خان اپنے منصب پر فائز رہیں گے بلکہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے کے باعث جمہوری استحکام میں بھی تسلسل آئے گا، خطے اور دنیا کے حالات اپنے دامن میں بہت سارے خطرات لیے ہوئے ہیں، اس تناظر میں پاکستان اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد یقیناً بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہ تقاضا کرتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو عدم اعتماد کا سیاسی معاملہ جمہوری انداز میں پارلیمنٹ کے اندر حل کرنا چاہیے، نہ کہ سڑکوں پر، میری گزارش ہے کہ فریقین تماشا لگا پاکستان کو دنیا میں تماشا بنانے سے گریز کریں کیوں کہ قومی مفاد دیگر تمام مفادات پر مقدم سمجھ کر ہی ہم مہذب قوم کہلا سکتے ہیں۔