Friday, March 29, 2024
ہومکالم وبلاگزپڑھے لکھے قصائی

پڑھے لکھے قصائی

‏ تحریر: سہیل احمد

آج پھر اپنے معاشرے کی تلخ حقیقت پر ایک نظر
وہ کہتے ہیں ناں
بد نالوں بدنام برا
قابل مشاہدہ بات ہے ان دنوں کی جب سوشل میڈیا نام کی کوئی چیز بھی نہیں ہوتی تھی. صرف بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی یاں ریڈیو
اسکول میں اساتذہ روحانی باپ کا رول ادا کرتے تھے
گھر میں ماں بچوں کی نشونما پر زور دیتی تھی اور باپ حق حلال کمائی کو اپنا ذریعہ معاش بنا کر بچوں کو اچھا انسان بنانے پر دن رات ایک کرتے تھے.
اسی دوران اگر کہیں کوئی برائی نظر آتی تو اس پر پردہ ڈالنے کی بجائے اسے جڑ سے ختم کراتے تھے.
جھوٹ اور فریب پر سزا دی جاتی تھی.
پولیس میں کالی بھیڑوں کی بدولت اس محکمے کو بدنام کرنے پر شدید ضرب لگائی گئی اور پھر اس پر ڈرامے اور لفظی جملوں نے جگہ لی . رہی سہی کسر آنے والے سی ایس پیز آفیسرز نے بھی پوری کروانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی.
آج تک اس محکمے پر لگے کالے دھبے کو کسی بھی کوشش کے باوجود ناں دھویا جا سکا.
صرف یہی محکمہ بدنام کیوں رہا . کیا باقی محکمے روزانہ غلط کام نہ کرنے کا حلف اٹھاتے تھے.
آج کل سوشل میڈیا بہت تیز ہے.
ہر ایک کے پاس اینڈرائیڈ فون اور بیسیوں چینل موجود ہیں ایک کلک پر دنیا کا احوال اور معلومات آپکے سامنے.
16 سال پہلے کا سچا واقعہ
نئی نئی جاب لگی.
زہن بالکل کلیئر
سکول اور گھریلو تربیت کیلیے بہت سخت لوگوں کے زیر سایہ رہا.
رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی کا سبق یاد تھا . خیر ادویات کی مارکیٹنگ کا کام زمے تھا
میڈیکل اسٹور .ڈاکٹرز , ڈسٹری بیوٹرز , اور اٹینڈنٹ کے ساتھ واسطہ پڑنے والا تھا.
جو کچھ ذہن میں تھا سب کچھ ایسے ختم ہوا جیسے
“” دور کے ڈھول سہانے”
جن کو دیکھ کر پروفیشن جوائن کیا تھا انہوں نے تو کوٹھی.گاڑی.اور دنیاداری میں بہت اونچا مقام پایا تھا
ہمارے زہن میں بھی وہی پروٹوکول تھا.
پر شاید اک خواب بن کر رہ گیا.
خیر :
بھرپور تیاری کی لٹریچر یاد کیے گئے کہ کس طرح ڈاکٹر کو میڈیسن کے متعلق بریفنگ دیں گے.
اچانک اسی دوران ٹیکنالوجی نے انگڑائی لی اور موبائل فون آنا شروع ہوئے.آدھا آدھا کلو والے پاکٹیل کے سیٹ سرفہرست تھے.
ہر کسی کے منہ میں پانی آنا شروع ہوا.
ایک ہفتے بعد جب باس کے ساتھ مشہور زمانہ لیڈی ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو اس نے موبائل کی ڈیمانڈ کر دی
اور کہا کہ ٹارگٹ بتاو
میری معصومیت کا یہ عالم تھا کہ جب تفصیل پوچھی کہ باس یہ کیا ہے تو 5 دن گھر سے نہ نکل سکا یہ سوچ کر کہ یی تو سیدھی سادھی رشوت ہے
ہم کس طرف جارہے ہیں .
پھر جب بڑوں کی بیٹھک لگی تو کچھ یوں تفصیل ظاہر کی گئی کہ بیٹا آپ کو اس سے کیا .کمپنی جانے اس کا کام جانے .
آپ نے تو ڈاکٹر کو دوائی ہروموٹ کرنی ہے اور اپنی تنخواہ لینی ہے
خیر “” نوکر کی تے نخرہ کی “”
سرکاری نوکری نہ ہونے پر اسی کو غنیمت جانا اور دوڑ لگا دی ..
کیونکہ پیٹ کی خاطر مرتا نہ تو کیا کرتا.
پھر نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی اور ڈٹ گئے کہ کچھ کرکے ایک مقام کو حاصل کرنا ہے
کچھ سال گزرے
پروفیشن میں ایک محنتی کے طور پر امیج بنا لیا
دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب علاقے میں ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج بنایا گیا جس میں میرٹ پر پورا ناں اترنے والے بچوں کو بھی پیسے لے کر ڈاکٹر بنا دیا جانا تھا .
ایک ڈاکٹر کے پاس بیٹھے تھے عمر کے لحاظ سے 55′ میں شمار ہوتے تھے. کافی اچھی بیٹھک ہوتی تھی انکے ساتھ.
اسی وجہ سے سامنے ایک فون کال آئی .کیونکہ پی ٹی سی ایل کے پرانے سیٹ کے ہیڈ فون سے اچھی آواز دوسروں تک بھی پہنچ جاتی تھی سو ہم نے بھی سنا.
ہوا کچھ یوں کہ انکے عزیز کے بیٹے کا میرٹ گرا ہوا تھا تو سوچا بچے کو ڈاکٹر بنائیں گے تو وراثتی کلینک سنبھال لے گا.
لہذا 2007 میں 30 لاکھ پر بات فائینل ہوئی.
جو آجکل شاید کروڑ کو ٹچ کر گئی ہو گی.
ظاہر سی بات ہے جو لگاتا یے پھر کمانے پر بھی فتوئ اسے ہمارا معاشرہ ہی دیتا ہے
پھر وقت نے زور دار انگڑائی لی اور مزید جدت آ گئی.سب کچھ بدل گیا.
اب تو مارکیٹنگ کمپنیوں نے انفارمیشن آفیسرز کی جگہ عہدے کا نام سیلز پروموشن آفیسرز رکھ دیا
“” سیل کو بڑھانے والا””
زمانے کی نوعیت اور ڈاکٹروں کی ہوس کو مد نظر رکھتے ہوئے مالکان ڈائیریکٹ ڈیل میں آگئے اور رہی سہی محنتی ملازمین کی جگہ جعلی ڈگریوں والے اور چاپلوسی, خوشآمد پرست لوگوں نے لے لی.
آج کل جو جتنا گڑھ ڈالے گا اتنا میٹھا کھائے گا والا حساب ہو گیا.
17 سال پہلے جو ڈاکٹر کمپنی سے 1000 روپے کے رائیٹنگ پیڈ پرنٹ کروانے سے ڈرتے تھے
آج وہ ان چیزوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں.
خیر یہ تو کچھ بھی نہیں
حلال حرام کی تمیز نہ ہونے کے برابر
جو ڈاکٹر اپنی جیب سے ایک پنسل نہیں خرید پاتے تھے آج کمپنیاں ان کے بچوں کے اسکول کی فیسیں, گاڑیوں کی قسطیں , ہوٹلوں میں گیدرنگ. پک اینڈ ڈراپ , یورپئین ٹوور, کلینک رینوویشن , ریٹرن ٹکٹس , کیش اماونٹ وغیرہ وغیرہ دینے پر مجبور ہو گئی ہیں .
یہ سب لینے والے پر انحصار کرتا.
کیسی بات ہے ڈاکٹروں نے
نے نیچر “” قدرت”” کو پڑھا آج وہی قدرت کی مخلوق کو لوٹنے میں لگے.
آج آپریشن کے نام پر لاکھوں روپے دینے پر لوگوں کو مجبور کیا جا ریا ہے.
رہی سہی کسر تو حکومت نے انکو کلینک کے اندر فارمیسی کھولنے پر انکے دھندے کو چار چاند لگا دیئے ہیں .مارکیٹ میں فارمیسی پر کروڑوں لگانے والوں پر اب یہ بات فٹ آتی ہے
“”باتیں کروڑوں کی دکان پکوڑوں کی””
کیونکہ انکی سیل تو ڈاکڑر کے کلینک کی اپنی فارمیسی کی وجہ سے ٹھپ ہو گئی ہے
آج ٹراسپیرینسی انٹرنیشل کی رپورٹ پڑھی جس میں پاکستانی سیاستدانوں کے بعد دوسرے نمبر پر ڈاکٹر آگئے ہیں
سیاستدانوں نے ملک لوٹا
جو بچ گئے تھے انہیں ڈاکٹروں نے لوٹ لیا.
ہمارے پیارے پیغمبر ؐ نے ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی تھی لیکن
ہمارے کام تو شاید کافروں سے بھی بدتر ہیں
کیسا کھلا تضاد ہے
تعلیم اور پریکٹیکل
جانا پھر بھی خالی ہاتھ
ہم کس طرف چل پڑے ہیں
انسان کی جگہ پیسے نے لے لی.
“” جس نے ایک انشان کی جان بچائی. گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی””
کیوں اتنا پیسا لگاتے ہیں اپنے بچوں کی تعلیم پر
اگر انہوں نے کمانا ہی پیسا ہے تو اتنے سال اور دماغ خرچ کرنے سے بہتر ہے کوئی معقول کاروبار کر لیا جائے
کم از کم پڑھے لکھے قصائی کہلوانے سے تو بچ جائیں گے.

شاید “” شرم انکو مگر آتی نہیں “”
حکومت ستو پی کر سو رہی ہے ٹھنڈے جو ہوتے.
حیرت اس بات کی ہے
کہ اتنے بد ہونے کے باوجود بدنام کیوں نہیں ہوئے .
کیسا آنکھوں دیکھا زہر کھانے پر مجبور ہیں
آج بھی لوگ ان قصائیوں کو ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارتے ہیں
جیسے ملک لوٹنے والوں کو میڈیا
نواز شریف صاحب , شہباز شریف صاحب, زرداری صاحب , مریم صفدر صاحبہ کے نام سے پکارتا ہے
ایسا کیوں





‎@iSohailCh