Saturday, April 20, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزہماری برآمدات کا فوکس اور ویتنام

ہماری برآمدات کا فوکس اور ویتنام

‏تحریر: ضیغم ایاز
‎@zaghamayaz
ویتنام رقبے کے لحاظ سے ہمارے بلوچستان صوبے سے چھوٹا جبکہ آبادی کے لحاظ سے پنجاب سے چھوٹا ہے۔ 1973 میں جب امریکہ وہاں سے نکلا تو وہ اسی مقام پر کھڑا تھا جہاں آج معاشی لحاظ سے افغانستان کھڑا ہے۔ 1973 کا مطلب ہے اسلام آباد کی تعمیر سے بھی پانچ سال بعد اس ملک نے تقریباً ابتدا سے قومی تعمیر و ترقی کی ابتداء کی۔ آج اس کا جی ڈی پی ہمارے جی ڈی پی سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی سالانہ برآمدات ہماری برآمدات سے بارہ گنا زیادہ یعنی تقریباً 300 ارب ڈالرزکو چھونے جارہی ہیں۔ آج سے بیس برس پہلے کے ویتنام میں چلتا پھرتا پاکستانی کسی ترقی یافتہ ملک کا باشندہ نظرآتا تھا۔ جبکہ اب ویتنام جا کر دیکھیں تو آپ کو فیکٹریوں کے جال نظر آئیں گے۔ ہمارے ایک صوبے سے بھی چھوٹا ملک اورعملی طور ہم سے بھی چھبیس سال بعد ابتددا سے اٹھنے والا ملک ہم سے اتنا آگے کیسے نکل گیا؟ اس کا جواب میری سمجھ کے مطابق سنگل پارٹی سسٹم ہے جس نے اپنا پورا آئین ہی تقریباً آٹھ برس پہلے بدل ڈالا تھا۔ قوانین اور ضابطے تو وہاں شاید ہر تھوڑے تھوڑے عرصے بعد زمینی حقائق اور آئندہ کے اہداف کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے لمبے منصوبوں کی راہ میں انتخابات حائل نہیں ہوتے ۔ قوموں کے لحاظ سے وہ شاید ہم سے بھی زیادہ قوموں والا ملک ہے لیکن وہاں اسٹیٹ پہلے ہے اور قوم بعد میں۔ ان کی اتنی بڑی برآمدات میں 51 فیصد مشینری ہے ہے۔ بقیہ 49 فیصد میں میں تقریباً 25 ارب ڈالرز ( یعنی ہماری کل کائنات) کے جوتے وغیرہ ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔ تقریباً 16 ارب ڈالرز کے کپڑے ، اور تقریباً 16 ارب ڈالرز کا ہی فرنیچر، لایٹس اور پری فیبریکیٹڈ بلڈنگ میٹریل وغیرہ شامل ہے۔