Friday, March 29, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزایک قوم اور ایک سوچ

ایک قوم اور ایک سوچ

‏تحریر : عزیزالرحمن
‎@The_Pindiwal
ہمارے ذہن میں ہر وقت کوئی نہ کوئی خیال بنتا رہتا ہے ۔ اور ایک لمحے میں بہت سے خیالات ذہن میں بنتے ہیں ۔ اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انسانی ذہن ایک مشین ہے جو مختلف قسم کے خیالات بناتی ہے ان میں سے کچھ مثبت اور کچھ منفی ہوتے ہیں ۔ مثبت خیالوں کا نتیجہ مثبت اور منفی خیالات کا نتیجہ منفی ہوتا ہے ۔
بہت سے خیالات مل کر ایک سوچ بناتے ہیں ۔ کامیاب زندگی، مثبت سوچوں اور جبکہ ناکام زندگی منفی سوچوں کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ سوچ انسانی ذہن پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی قسمت خود بناسکتا ہے ۔ زندگی کا ہر منظرسوچ سےجنم لیتا ہے اور سوچ پر ہی ختم ہوتا ہے ۔ ایک منفی سوچ کا حامل شخص منفی عمل کو جنم دیتا ہے جبکہ مثبت سوچ کا حامل شخص تعمیری فعل انجام دیتا ہے ۔
ہماری زندگی پر ہماری سوچ اور خیالات مستقل طور پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ولیم شیکسپیئر نے کہا تھا کہ “ہم وہ نہیں ہوتے جو کرتے ہیں بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں” یعنی اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ کوئی کام کرسکتے ہیں تو آپ کرسکیں گے اور اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ نہیں کرسکتے تو کچھ بھی کرلیں آپ وہ کام نہیں کرسکیں گے ۔ مثبت اور منفی خیالات انسان کے ذہن میں ہر وقت آتے رہتے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نا ہو گا کہ انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا غلبہ رہتا ہے اور انسان کی زندگی کے بیشتر زاویےاسکی ذہنی سوچ سے جنم لیتے ہیں اسی سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی آبیاری ہوتی ہے اوران جذبات کی بنیاد پر ہی انسان کا ہرعمل ہمارے سامنے آتا ہے سوچ سے خیال، خیال سے نظریہ، نظریہ سے مقصد، مقصد سے تحریک، تحریک سے جستجو اور جستجو سے کامیابی جنم لیتی ہے ۔
لیکن سوچ کا مثبت یا منفی ہونے سے زیادہ ضروری سوچ کا ایک ہونا ہے سوچ سے رویے جنم لیتے ہیں اور رویوں سے معاشرہ جنم لیتا ہے کسی معاشرے کی ترقی کے لیے اس معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی سوچ کا مثبت اور سوچ کا ایک ہونا بہت ضروری ہے جب معاشرے کے لوگوں کی سوچ ایک جیسی نہیں ہوگی تو اس معاشرے کا ترقی کرنا مشکل ہو جاتا ہے ایک قوم بننے کے لیے سب کا ایک سوچ اور ایک نظریہ ہوتا ہے اور اس نظریے کے تحت پوری قوم ایک ساتھ مل کر چلتی ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ “اس قوم کی اصلاح کیسے ہو جس کے ہر فرد کے لیے اصلاح کا مطلب دوسرے کی اصلاح کرنا ہوا۔
ہمارے ملک پاکستان میں ہر ایک انسان کی سوچ دوسرے انسان سے بالکل مختلف ہے۔ ہرایک آدمی کا چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا طورطریقہ دوسرے سے بالکل ہی مختلف ہے ۔ جو ہمیں ایک قوم بننے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ سب سے پہلے تو آتے ہیں فرقہ واریت پر ۔ فرقہ واریت ہمارے ملک میں بہت عام ہے ایک فرقےکو ماننے والا دوسرے فرقے کی ہر بات پر اعتراض کرے گا ۔ چاہے وہ بات ٹھیک ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ اگر اس کے فرقے میں غلط ہے تو وہ بغیر سوچے سمجھے بات کو غلط قرار دے دے گا ۔ اور اگر اپنے فرقے کی بات ہو تو ہر بات پر آنکھ بند کر کے یقین کر لے گا ۔ اور اس کے معاملے میں کسی قسم کی تصدیق نہیں کرے گا ۔
اس کے بعد آتے ہیں سیاسی جماعتوں پر اگر ایک ہی فرقے کے لوگ ایک ہی فرقہ ہونے کی وجہ سے بحث و تکرار میں نہیں پڑتے تو دو مختلف جماعتوں کے کارکن ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے بحث ضرورکریں گے اور یہ بات عین ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف یا ایک دوسرے کی جماعتوں کے خلاف غلط الفاظ استعمال کریں گے ۔ اس طرح ان کے مذہبی معاملات میں تو سوچ ایک جیسی ہو جاتی ہے لیکن سیاسی معاملات میں وہ ایک دوسرے کے فریقین بن جاتے ہیں ۔
اس کے بعد آتے ہیں لبرل ازم پر ۔ لبرل ازم آج کل پاکستان میں ایک اور مسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کا اس معاملے میں نظریہ مختلف ہے ۔ اگر دو آدمیوں کی فرقے اور سیاست کے حوالے سے سوچ مل بھی جاتی ہے تو یا تو ان میں سے ایک لبرل ازم پر یقین کرنا ہوگا اور ایک نہیں۔
سوچ کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک مالدار آدمی ایک کپڑے کی دوکان پر جا کر کہتا ہے کہ کوئی سستے سے کپڑے دکھاؤ میرے بیٹے کی شادی ہے اور میں نے اپنے ملازم کو تحفے میں دینے ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد اس آدمی کے چلے جانے کے بعد اس دوکان میں ہی اس آدمی کا نوکر آیا اور دوکاندار سے کہنے لگا کہ مجھے کوئی قیمتی سے کپڑے دکھاؤ ۔ میرے مالک کے بیٹے کی شادی ہے اور مجھے ان کو تحفے میں دینے ہیں ۔ اس دوکان کا مالک بہت پریشان ہوتا ہے کہ اس کے مالک نے اس کے لیے سستا سا کپڑا پسند کیا جبکہ ملازم نے مالک کے لیے مہنگا کپڑا پسند کیا ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ غربت کا تعلق پیسے سے نہیں سوچ سے ہوتا ہے ۔ سوچ انسان کی اصل اوقات دکھاتی ہے۔ انسان کی شخصیت پر اس کی سوچ کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔