Friday, March 29, 2024
ہومشوبزدنیا آج بھی شہنشاہ قوال کی خوبصورت آواز کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے

دنیا آج بھی شہنشاہ قوال کی خوبصورت آواز کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے

استاد فتح علی خان کے ہاں چار بیٹیوں کے بعد 13اکتوبر1948 کو نورِ نظر پیدا ہوا تو اس کا نام پرویز رکھا گیا جو بگڑ کر پیجی کی صورت اختیار کرگیا۔ بچپن میں ایک بزرگ نے نام بدل کر نصرت رکھ دیا جو والد کے نام کے ساتھ نصرت فتح علی خان بنا اور جس کی شہرت ملکوں ملکوں ہوئی۔نصرت فتح علی خان کے لڑکپن کی بات ہے کہ کلکتہ سے مشہور گائیک پنڈت دینا ناتھ فیصل آباد آئے اور ان کے گھر قیام کیا۔ استاد فتح علی خان سے انھوں نے شکوہ کیا کہ یہاں گانا انھوں نے خاک تھا کہ طبلے پر سنگت کے لیے کوئی ڈھنگ کا بندہ ہی نہ ملا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ گانے والے بنیں، طبلہ نصرت بجائے گا۔قوالی کے 125 البم ریکارڈ کروانے پر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آگیا۔نصرت کی انگلیوں نے طبلہ کو چھوا تواستاد دینا ناتھ اس نوعمر کی مہارت پر حیران رہ گئے۔ اٹھ کر اسے گلے لگایا اور کہا: فتح علی خان، یہ تیرا چھوٹا بیٹا بڑا گنی ہے۔موسیقی کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کے پرستار آج ان کی 73ویں سالگرہ منارہے ہیں۔استاد نصرت فتح علی خان قوالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، اپنی منفرد گائیکی کی بدولت پوری دنیا میں نام پیدا کیا۔استاد نصرت فتح علی خان 13 اکتوبر 1948 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے ، ان کے والد کا نام فتح خان تھا ااوروہ خود بھی نامور گلوکار، سازندے اور قوال تھے۔استاد نصرت فتح علی خان نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ٹائم میگزین نے 2006 میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کیریئر کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔نصرت فتح علی خان نے مینوں سوچاں دیا ں دے گیا سوغاتاں، سن چرخے دی مٹھی مٹھی کوک، دم مست قلندر مست مست، آ جا تینوں آکھیاں ادیک دیاں، آفریں آفریں، میری توبہ توبہ، تم اک گورکھ دھندا ہو، کوئی جانے یا نہ جانے سمیت سینکڑوں نغمات اور قوالیاں گا کر بے حد شہرت حاصل کی۔نصرت فتح علی خان کی ایک حمد وہ ہی خدا ہے کو بھی بہت پذیرائی ملی جبکہ ایک ملی نغمے میری پہچان پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے گایا گیا گیت جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم آج بھی لوگوں کے دلوں میں بسے ہیںنصرت فتح علی خان کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا مینگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔دنیا آج بھی شہنشاہ قوال کی خوبصورت آواز کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے۔نصرت فتح علی خان نے جس طرح اپنے فن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا اس طرح فن موسیقی میں پاکستان کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کا کریڈٹ صرف اور صرف استاد نصرت فتح علی خان کو جاتا ہے۔مشرقی اور مغربی موسیقی کا شاندار امتزاج پیش کرنیوالے نصرت فتح علی خان نے کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔ سال 1995 میں انہیں یونیسکو میوزک ایوارڈ دیا گیا جبکہ 1997 میں انہیں گرامی ایوارڈز کیلئے نامزد کیا گیا۔وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اورصرف 48سال کی عمر میں 16اگست 1997 کودنیا سے کوچ کر گئے۔