بیجنگ :2 دسمبر کو ، امریکہ نے قومی سلامتی کے بہانے چین کے لیے سیمی کنڈکٹر برآمدی کنٹرول اقدامات کا ایک نیا دور جاری کیا۔ 5 دسمبر کو چین کی وزارت خارجہ اور وزارت تجارت نے بیک وقت امریکی فوجی اداروں اور سینئر مینیجرز پر پابندیاں عائد کرنے اور امریکہ کے لیے فوجی اور غیر فوجی دوہرے استعمال کی اشیاء پر برآمدی کنٹرول سخت کرنے کا اعلان کیا، جو امریکہ کی جانب سے تائیوان کو بار بار اسلحے کی فروخت اور چین کے حوالے سے چپ برآمدی کنٹرول میں مسلسل اضافے کے خلاف ایک طاقتور جوابی اقدام ہے۔
رواں سال یہ آٹھواں موقع ہے جب چین نے تائیوان کو اسلحے کی فروخت پر امریکہ کے خلاف جوابی اقدام کیا ہے۔ یہ پابندیاں غیر معمولی ہیں، جن میں 13 کمپنیاں اور 6 ایگزیکٹوز شامل ہیں، اور چین میں تنظیموں اور افراد کو ان کے ساتھ تجارت، تعاون اور دیگر سرگرمیوں سے روک دیا گیا ہے. اس کے علاوہ ایکسپورٹ کنٹرول کے حوالے سے وزارت تجارت نے متعدد اقدامات بھی متعارف کرائے ہیں جن میں امریکہ کو دوہرے استعمال کی اشیاء کی برآمد پر پابندی، امریکہ کو کچھ نایاب دھاتوں اور دیگر معدنیات پر برآمدی کنٹرول سخت کرنا اور تائیوان کو اسلحے کی فروخت میں ملوث متعدد امریکی فوجی اداروں کو ناقابل اعتماد اداروں کی فہرست میں شامل کرنا شامل ہے۔
امریکہ کے خلاف چین کے جوابی اقدامات کو کیسے دیکھتے ہیں؟مفصل وضاحت مشکل ہے، لہذا میں چند ایک الفاظ میں مختصر طور پر اپنی رائے شیئِر کرتا ہوں.
اول ،چین نے تمام جوابی اقدامات مجبوراً اٹھائے ہیں ، اگر امریکہ اپنی غلطی کو درست نہیں کرتا تو چین آخر تک اس کا جواب دے گا۔ چین کو امید ہے کہ سخت سے سخت تر جوابی اقدام امریکی حکومت کو ہوش میں لائے گا اور باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور باہمی تعاون کے تین اصولوں کے مطابق دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور فروغ دینے کی راہ پر واپس آئے گا۔ “اگر کوئی مجھ پر حملہ نہیں کرے گا تو میں بھی اس پر حملہ نہیں کروں گا، اور اگر وہ مجھ پر حملہ کرتا ہے تو میں ضرور حملے کا جواب دے دوں گا”۔ یہ مشہور نعرہ ہے جو آنجہانی چینی رہنما ماؤ زے تنگ نے پیش کیا تھا؛ چاہے وہ پچھلی صدی میں جاپانی حملہ آور تھے، یا امریکہ اور سابق سوویت یونین جو بعد میں چین کے مخالف تھے، یا واشنگٹن، جو اب “سائنو فوبیا” کا شکار ہے، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ، چینی حکومت اور چینی عوام کا یہ رویہ ہمیشہ سے مستقل رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ، جو خود کو پہاڑکی چوٹی پر واقع شہر کہلانے پر فخر اور غرور کرتا ہے، چین کی طرف سے ہر ایک طاقتور جوابی اقدام کے بعد چین کے ساتھ دوطرفہ برآمدی کنٹرول مذاکرات میں مشغول ہونے کا خواہاں ہے، اور چین کے خدشات کو سننے پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے: اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر آپ اندھا دھند پیچھے ہٹتے رہیں اور سر جھکاتے رہیں ، تو آپ محفوظ نہیں رہیں گے، بلکہ آپ کا گلا گھونٹ دیا جائے گا ۔یہ بات کسی قوم کی تقدیر سے تعلق رکھتی ہے جس پر پوری توجہ دی جانی چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ کے خلاف چین کا جوابی نظام پختہ ہو رہا ہے اور جوابی حملوں کے اثرات بھی بہتر ہو رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، چین نے غیر ملکی پابندیوں کے خلاف قانون اور ایکسپورٹ کنٹرول قانون نافذ کیا ہے، ساتھ ہی ناقابل اعتماد ادارے کی فہرست کی دفعات، غیر ملکی قوانین اور اقدامات کے غیر مناسب بیرون ملک اطلاق کو روکنے کے اقدامات، اور دوہرے استعمال کی اشیاء کے برآمدی کنٹرول سے متعلق ضوابط کو نافذ کیا ہے. چین کی جانب سے امریکہ کو فوجی استعمال کے لیے دوہرے استعمال کی اشیاء کی فروخت پر پابندی، جس میں فوجی پیداوار کے لیے درکار چند اہم خام مال بھی شامل ہیں، یقینی طور پر امریکی جنگی مشین کے آپریشن پر بڑا اثر ڈالے گا، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے “معروضی طور پر عالمی امن و استحکام کو فروغ دیا ہے”! کیا یہ مبالغہ آرائی ہے؟ دنیا کے ہنگامہ خیز مناظر پر نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ سچ ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ امریکی پابندیوں کی بڑی چھڑی کے برعکس چین کے جوابی اقدامات کا ، جو ہر بار زیادہ سے زیادہ بے رحم ہوتے گئے ہیں، مقصد امریکی مفادات کی خلاف ورزی نہیں ہے، چین ہمیشہ چین امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے اور ترقی دینے کے لیے پرعزم رہا ہے اور جوابی اقدامات صرف امریکہ کی زیادتی پر مجبوراً فعل ہے۔ 3 دسمبر کو جب چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے بیجنگ میں امریکی قومی خارجہ پالیسی کمیٹی کے ایک وفد سے ملاقات کی تو انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ امریکہ کے حوالے سے چین کی پالیسی میں استحکام اور تسلسل برقرار ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں ایک بڑے ملک کا عزم اور ساکھ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ چین کے ساتھ اسی سمت میں کام کرے گا: سب سے پہلے، ہم چین اور امریکہ کے تعلقات کو غیر متزلزل طور پر مستحکم کریں گے۔ دوسرا یہ یقینی بنانا ہے کہ اسٹریٹجک تفہیم انحراف نہ کرے۔ تیسرا یہ ہے کہ بات چیت اور مکالمے پر زور دیا جائے۔ چوتھا، باٹم لائن اور سرخ لکیر پر سختی سے عمل کریں اور لائن کو عبور نہ کریں۔ پانچواں، دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان تبادلوں کو فروغ دینا چاہیے۔
تاریخ نے پوری طرح ثابت کیا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعاون سے دونوں فریقوں کو فائدہ ہوگا، اور یہ کہ لڑائی دونوں کو نقصان پہنچائے گی، “نئی سرد جنگ” نہیں لڑی جا سکتی اور نہ ہی جیتی جا سکتی ہے۔ چین کو روکنا دانشمندی نہیں ہے، کامیابی تو دور کی بات ہے. مجھے امید ہے کہ “پہاڑ کی چوٹی پر واقع شہر” ہونے کے ناطے، واشنگٹن میں دور اندیش لوگ ہوں گے جو واشنگٹن کے شہزادوں کو بتائیں گے: عاجزانہ رویہ فائدہ مند ہے، تکبر اور غرور نقصانات اور جرائم کا باٰعث ہیں ۔ حقیقی طاقتور کو عاجز اور کھلے ذہن کا ہونا چاہئے ، قول و فعل میں یکسانیت رکھنا چاہئے ، عقل اور اخلاق سے لوگوں کا احترام اور مقبولیت جیتنی چاہئے ، بجائے اس کے کہ کمزور لوگوں پر طاقت کے استعمال کی عادت اپنائی جائے اور بے رحم ہوا جائے ، اور مضبوط لوگوں کے سامنے بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔ اگر امریکہ عالمی رہنما بننا چاہتا ہے تو اس کو ایک رہنما کی طرح عمل کرنا ہوگا اور امریکہ کو اس سلسلے میں چین سے سیکھنا ہوگا۔