وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)کے سائبر ونگ نے حال ہی میں کوئٹہ اور کراچی سے کچھ ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جو جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے موبائل فون سمز فروخت کرنے کی آڑ میں لوگوں کے جعلی فنگر پرنٹس بناتے اور ان کو مختلف بائیو میٹرک مشینوں کو ہیک کرنے اور دوسرے فراڈ میں استعمال کرتے تھے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق حراست میں لیے گئے ملزمان کے قبضے سے ایکٹیو موبائل سِمز اور 100 سے زائد ربڑ کے انگوٹھوں سمیت دیگر اشیا برآمد ہوئی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار شدہ افراد کا تعلق ایسے گروہوں سے ہے جو دھوکے سے سرکاری بائیومیٹرک سسٹم کا توڑ کر کے مختلف نوعیت کے فراڈ کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ایف آئی کے زیر حراست افراد جعلی فنگر پرنٹس کے زریعے بائیومیٹرک سسٹم کا توڑ کرکے جعل سازی کرتے تھے اور اس سلسلے میں تمام ٹیلی کام کمپنیز کو ڈیٹا محفوظ بنانے کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایف آئی اے نے کئی شہروں میں کارروائی کرکے ایسے افراد کو حراست میں لیا ہے جو یہ جعل سازی کر رہے تھے۔
پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے)ملک میں جعلی سمز کے استعمال کی روک تھام کے لیے مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔ تمام ٹیلی کام کمپنیز کو ہدایات ہیں کہ اپنا ڈیٹا محفوظ اور تصدیق کے ساتھ رکھیں۔
بائیومیٹرک سسٹم کا توڑ
حکام کے مطابق جعلی فنگر پرنٹس بنانے والے ملک گیر گروہ سلیکون سے انگوٹھے کے نشان بنا کر ناصرف موبائل فون کی سمز جاری کر رہے ہیں بلکہ ڈیجیٹل لین دین میں بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔
ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے غیر ملکی ویب سائٹ کو جعلی فنگر پرنٹس کے معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے کئی شہروں میں جرائم پیشہ افراد حکومت کے بنائے گئے بائیو میٹرک سسٹم کا توڑ نکال چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سال 2021 میں پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر نوشہرو فیروز میں ایف آئی اے نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے ایک ایسے ہی گروہ کو گرفتار کیا تھا۔ گرفتار افراد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس کفالت پروگرام سے پیسے نکلوانے اور غیر قانونی موبائل فون سمز جاری کرنے میں ملوث تھے۔
ملزمان کے قبضے سے سلیکون کے انگوٹھے، فلیش ڈرائیو جس میں انگوٹھوں کے ہزاروں نشان موجود تھے، مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کی ایکٹو سِمز، لیپ ٹاپس سمیت دیگر سامان برآمد ہوا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم نے ایک اور کارروائی بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں کی۔ اس کارروائی میں ایک شخص کو حراست میں لیا جس کے قبضے سے 2100 ایکٹو موبائل سمز، 1973 سلیکون انگوٹھے، 1947 پیپر انگوٹھے شیٹ اور 20 ووٹر لسٹیں برآمد ہوئی۔ ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے مزید تحقیقات کی گئیں۔
مفت سم کے ذریعے فنگر پرنٹس حاصل کرنے کا فراڈ
ایف آئی اے کے افسر کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان نے دوران تفتیش بتایا کہ کئی طریقوں سے جعلی انگوٹھے بنائے جاتے ہیں۔ اس میں ایک آسان طریقہ تو شہریوں کو بے نظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام جیسے پروگرام میں رجسٹرڈ کرنے کا جھانسہ دے کر ان کے فنگر پرنٹس محفوظ کر لیے جاتے ہیں اور پھر ان نشانات کے پیپر پر پرنٹ نکلوا کر سلیکون کے انگوٹھے بنائے جاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ گلی محلوں میں پرانی سِم بند کروانے اور مفت نئی سِم فروخت کرنے کا جھانسہ دیکر بھی فنگر پرنٹس حاصل کیے جا رہے تھے جبکہ تیسرا طریقہ ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے فنگر پرنٹس لیے جا رہے تھے۔
جعلی انگوٹھے بنانے والے آسان سے طریقے سے فنگر پرنٹ ڈرائیو میں سیو کرکے عام سے پرنٹر سے کاغذ پر پرنٹ نکال کر ربڑ کی اسٹیمپ کی طرح ربڑ کے جعلی انگوٹھے بنا لیتے ہیں۔
یاد رہے کہ سال 2008 میں حکومت پاکستان کی جانب سے موبائل فون صارفین کو یہ ہدایت جاری کی گئی تھی کہ سیلولر کمپنیز اپنے صارفین کو سم بائیو میٹرک تصدیق کے بعد ہی فراہم کریں اور پرانی سِم رکھنے والے صارفین کی بھی تصدیق کا عمل مکمل کیا جائے۔
اس سے قبل سی ٹی ڈی انچارج راجہ عمر خطاب کے مطابق 2019 میں سی ٹی ڈی نے جعلی فنگر پرنٹس بنانے والے ایک گروہ کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا تھا۔ سی ٹی ڈی کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ملزمان کے قبضے سے جعلی انگوٹھے اور ایکٹو سمز برآمد ہوئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں عام شہریوں کے نام پر رجسٹرڈ سمز سے بھتے کی کال سمیت دیگر وارداتیں کی گئی ہیں۔
جعل سازوں کے خلاف کارروائی جاری: وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی
وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق نے بتایا کہ حکومت کے مختلف ادارے جعلسازوں کا قلع قمع کرنے کے لیے مربوط کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پی ٹی اے بھی مسلسل اس معاملے میں ایف آئی اے سمیت دیگر متعلقہ اداروں سے آن بورڈ ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملک کے کونے کونے کو دنیا سے جوڑیں اور شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو بھی موبائل اور انٹرنیٹ کی اچھی سہولت فراہم کریں۔ اس پروجیکٹ میں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ جو شخص بھی موبائل سِم استعمال کرے، وہ قانونی ہو اور تصدیق شدہ ہو۔
دیہی علاقے جعل سازوں کے نشانے پر
آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے کے ماہر عمران راو نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اب کافی حد تک ٹیکنالوجی کے منفی استعمال کو روکا گیا ہے لیکن اس کے باوجود غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد انتہائی مہارت سے حکومتی نظام کو چکمہ دیتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جعلی انگوٹھے کا سکینڈل 2021 میں سامنے آیا تھا۔ اس میں عام شہریوں کو جھانسہ دے کر ان کے انگوٹھے کے نشانات حاصل کیے گئے اور پھر کئی سِمز ان کے ناموں سے رجسٹرڈ کرکے فروخت کر دی گئیں۔
یہ سرگرمیاں انتظامیہ کے لیے بھی پریشان کن تھیں کیونکہ انگوٹھے کے نشان بالکل درست تھے اور تصدیق پر شہری کی تفصیلات بھی فراہم کرتے تھے۔ اور یہ معاملات زیادہ تر ایسے علاقوں میں پیش آ رہے تھے جہاں لوگ ٹیکنالوجی کے استعمال میں نہ ہونے کے برابر تھے۔
عمران راو کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں تعلیم اور ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے انگوٹھے کے نشان دینے والے کو معلوم تھا کہ اس کے نام کتنی سِمز ہیں اور نہ استعمال کرنے والے کو علم تھا کہ کس کے نام سِم ہے۔
جعلی فِنگر پرنٹس کا دھندہ، شہری مجرموں کے جال میں کیسے پھنس رہے ہیں؟
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔