Saturday, April 20, 2024
ہومکالم وبلاگزمیرا سکول جلایا گیا

میرا سکول جلایا گیا

تحریر : فیض اللہ فراق

کیا اذیت ، کیا تکلیف اور کیا درد دے کے جاتے ہیں یہ لوگ ، کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ جو مجھ قلم و کتاب کے رشتے سے جدا کرنا چاہتے ہیں؟ کون ہیں یہ لوگ جو تعلیم اور شعور کے دشمن ہیں ؟ میں تو پڑھنا چاہتی ہوں ، میں دادی جوری کی داستان ہوں ، میں حضرت فاطمہ کی وراثت رکھتی ہوں ، میرا علمی نسب تو حضرت عائشہ اور خدیجہ سے جا ملتا ہے ، کرہ ارض کے لوگوں نے تو آج سے 14 سو برس قبل ہی مجھے شجرہ ممنوعہ سمجھا تھا، مجھے زندگی کی رونقیں دیکھنے سے قبل ہی زندہ درگور کرتے تھے ، میرے وجود سے پرورش پانے والے مجھے معیوب سمجھتے تھے ، پھر کیا ہوا؟ ایک رہبر انسانیت سرور کونین کی آمد ہوئی جس نے میرے وجود کو محض عورت نہیں بلکہ ماں ، بہن اور بیوی کے مقدس وجود سے جوڑا ، جس نے جہالت کے پردوں کو چاک کیا، جس نے فرسودہ روایات کا گلہ دبایا اور انسانیت کیلئے ایک ایسا ایجنڈا لیکر آیا جس میں انسانیت کی تکریم ، صنف نازک کا احترام اور انسانی حقوق کا سبق شامل تھا، میرے نبی پر قرآن مجید کی روپ میں ایک ایسی کتاب نازل ہوئی جو آفاقی ہے، اس کتاب کی سورت ‘لزمر’ میں اللہ نے خود فرمایا، جس کا ترجمہ ہے

” فرما دیجئے : کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے ( سب ) برابر ہو سکتے ہیں ، بس نصیحت تو عقلمند لوگ ہی قبول کرتے ہیں ۔
اس آیت میں اہل علم کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے، عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی فوقیت علم والے کو ہی ہے وہ چاہئے مرد ہو یا عورت اس کی کوئی قید نہیں ۔
میرے آقا ، سرور کونین ، رہبر انسانیت اور معلم کائنات نے اپنے رب کی اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ
” علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ”
میرے آقا کی ایک اور حدیث حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ” جس کے پاس کوئی باندی ہو پھر وہ اسے مؤدب بنائے اور تعلیم دلائے ‘ پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرے اس کیلئے دوگنا ثواب ہے”
میرے رب اور میرے آقا کی تو ہر بات سچ ہر قول حقانیت کی عملی تصویر ہے مگر کیوں زمانے والے میرے وجود سے خائف ہیں؟ کیوں مجھے پھتر کے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں ؟ میں بھی ایک بیٹی ہوں ، مجھے بھی پڑھنے کا حق ہے ، میں نے بھی ڈاکٹر بن کر اپنی خواتین کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہے ، میں نے بھی استاد بن کر اپنی بچیوں کو تعلیم دینی ہے ،
میرے سماج کے ناسمجھ لوگو !! ایک پڑھی لکھی ماں ہی اچھی نسل فراہم کرتی ہے ، ایک تعلیم یافتہ بہین ہی چادر کے تقدس کو سمجھتی ہے، ایک ہنر مند بیوی گھر کی عمارت کی مستحکم اینٹ ثابت ہوتی ہے ، کیوں میرے سکول جلاتے ہو ؟
کیوں مجھے رلاتے ہو؟
کیوں میرے رب کے حکم عدولی کرتے ہو؟
کیوں میرے آقا کے احادیث کو نہیں مانتے ہو؟
کیوں فرسودہ سوچ کے کمبل اوڑھے سوتے ہو؟
یہ جذبات ایک بہین کا ہے، ایک بیٹی کا ہے اور ایک طالبہ کا ہے جس کا گزشتہ شب داریل کے ایک علاقے میں سکول جلایا گیا ہے ، یہ واقعہ انتہائی اذیت ناک ، کربناک اور دل گرفتہ ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، دیامر کے باسیو! آپ مجموعی طور پر دیامر کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہو، ایک ترقی یافتہ دیامر کی خواہش ہے مگر مٹھی بھر شرپسند ہماری بچیوں کو مزید اندھیروں میں دیکھنا چاہتے ہیں پھر ہمارا ایک کردار بنتا ہے آئیے ! تعلیم دشمن شرپسندوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ایک تعلیم یافتہ دیامر کیلئے آگے بڑھیں.