Thursday, March 28, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزتہذیب کا معیار

تہذیب کا معیار

تحریر: یاسر خان بلوچ
‎@YasirKhanblouch
ہم خود کو بڑی مہذب قوم سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ہم یورپ سے 100 گنا بہتر اور مہذب ہیں۔ ہمارے مطابق پورا لباس پہننا اور زیادہ ڈگریاں حاصل کرلینا ہی مہذب ہونے کی علامت ہے حالانکہ پورا لباس پہننے سے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ میں مہذب ہوں کیونکہ مہذب ہونے کا تعلق لباس سے نہیں بلکہ آپ کے اندر کے انسان اور ایمان کے ساتھ ہے۔
آج کے تمام ترقی یافتہ ممالک غیر مسلم ہیں کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہم مسلمان ہو کر پستی کا شکار ہیں اور وہ کافر ہو کر عروج کے مزے لے رہیں ہیں؟اس کا جواب آسان سا ہے کہ اسلام نے جو ہمارے لیے ترقی کا معیار چنا،جن اقدار و روایات کو فرض بنا کر ہم پر لازم کیا ہم نے ان کو چھوڑ دیا جبکہ غیر مسلم لوگوں نے ان ہی کو مضبوطی سے تھام لیا اور ساری دنیا پر راج کرنے لگے۔ وہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے انکار کرتے ہیں مگر اسلام کے ہی جاری کردہ معاشرتی اصولوں کو اپنا کر ترقی کی دوڑ میں آگے نکل چکے ہیں جبکہ ہم اپنے ہی دین اور اس کی تعلیمات کو چھوڑ کر ذلیل و رسوا ہورہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا سے ہمارے ملک سے حج کرنے والوں کی تعداد زیادہ پوری دنیا میں 12 ربیع الاول کے جلوس ہمارے ہاں زیادہ اور محرم الحرام میں اتنا سوگ کہیں نہیں ہے جتنا پاکستان میں ہوتا۔ لیکن جب بات آئے ایمانداری کی تو ہمارے ملک 160 ویں نمبر پر ہے اور کافر ملک جاپان پہلے نمبر پر آئے۔ یہ ہیں ہم مسلمان؟
دودھ میں پانی ملانے کو ہم جرم ہی نہیں سمجھتے میڈیکل سٹور پر دو نمبر ادویات رکھ کر غریب کو بیچنےپر ہم کو کوئی ملال نہیں آتا اور بڑے ڈھیٹ ہو کر ہم لال مرچ میں اینٹیں رگڑ کر اس کا کچرہ شامل کرکے بیچتے ہیں۔ اور ہم اپنا مال بیچتے وقت ہرگز اس کی خامی نہیں بتاتے بلکہ اس کو چھپا کر عجیب سی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اگر ایسے ہوتے ہیں مہذب لوگ تو معاف کریں وہ غیر مہذب ہی اچھے ہیں۔ اگر آپ باہر کسی اور ملک میں جائیں اور وہاں جاکر کہیں کسی دکان والے کو کہیں کہ بھائی دودھ خالص دینا اس میں پانی ملا ہوا نہ ہو تو اسے سمجھ بھی نہیں آئے گی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں وہ اس بات سے ہی شاید بے خبر ہو کہ دودھ میں پانی بھی ملا کر بیچا جاتا ہے یا آپ وہاں کسی میڈیکل سٹور پرجا کر کہیں کہ جناب مجھے ایک نمبر دوائی دینا تو وہ حیران ہو کر آپ کا منہ تکنے لگے گا کہ دوائی بھی دو نمبر ہوتی ہے؟کیا کوئی انسان اتنا گھٹیا بھی ہوسکتا ہے کہ دوائی کے نام پر دو نمبر چیز بنائے گا اور پھر انسانوں کو بیچے گا۔۔ وہ دوائی جسے بچے اور بزرگ بھی استعمال کریں گے۔ اگر آپ وہاں کسی سے کہیں کہ یار پورا ایک کلو گرام تولنا تو اسے بہت غصہ آئے گا کہ یہ مجھ پر الزام لگا رہا ہے۔ ادھر یہ عالم ہے کہ گالی تو برداشت ہے مگر بے ایمان اور جھوٹا کہلوانا نہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ چیز گالی سے بھی زیادہ شرمناک ہےہم تو جھوٹ بول کر اور دونمبری کرکے اتنے عادی اور ڈھیٹ ہو چکے ہیں کہ اب یہ بات بری لگتی ہی نہیں۔لیکن پھر بھی ہم خود کو مہذب قوم کہلوانا چاہتے ہیں۔
یہاں ہر بندہ موقع کی تلاش میں ہے۔ وہ اس تاک میں رہتا ہے کہ میرا نمبر کب آئے گا ؟ مجھے موقع کب ملے گا؟ یہاں شریف وہی ہے جسے موقع نہیں ملا۔ جیسے ہی موقع ملتا ہے چوری چکاری،فراڈ،دھوکہ دہی،ملاوٹ،کرپشن ہر ناجائز کام کرنے پر آ جاتا ہے۔ تب بڑے بڑے پارساؤں کے شرافت سامنے آجاتی ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو ایسا انسان دوسروں کے ساتھ تو غلط کرتا ہی ہے مگر اپنی ذات کے ساتھ بھی منافقت کررہا ہوتا ہے۔جو اپنے آپ کو دھوکہ دے کر اور اپنے ضمیر کو تھپکیاں دے دے کر سلاتے ہوئے اپنے ہی لیے جہنم کا کوئی گڑھا انگاروں سے بھر رہا ہوتا ہے۔