Saturday, April 20, 2024
ہومکالم وبلاگزکیپٹن کرنل شیر خان شہید کی داستان

کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی داستان

برف پوش پہاڑ، موسم ایسا کہ سانس بھی جم جائے لیکن جذبہ اور حوصلہ ایسا کہ چٹان بھی جھک جائے۔ دنیا کے بلند ترین محازِ جنگ کارگل پر دشمن پر دھاک بٹھانے اور اس کے مزموم عزائم ناکام بنا کر کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے یہ ثابت کر دیا کہ بہادر مشکلات میں گھبرایا نہیں کرتا۔ یہ ایسے بہادر سپوت کی داستان ہے جس نے جان تو دے دی لیکن وطن کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی۔ نہ اپنا سر جھکایا اور نہ ہی قوم کا سر جھکنے دیا۔ یہی وہ بہادر ہیں جن کی ہمت، جرات، وطن سے محبت اور بہادری کا بر ملا اعتراف دشمن نے بھی کیا۔ جنہوں نے اپنے خون سے وطن کا دفاع کیا۔بھروقت قوتِ فیصلہ، بھرپور جوابی وار اور اللہ پر ایمان نے کیپٹن کرنل شیر خان کو یہ اعزاز بخشا کہ دشمن کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روک دیا بلکہ واپس لوٹنے پر بھی مجبور کر دیا۔ آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی تاریخ ہمیشہ بہادروں کو یاد رکھتی ہے۔ جب جب جرت اور دلیری کا ذکر آئے گا، کیپٹن کرنل شیر خان ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔کیپٹن کرنل شیر خان1970میں صوابی میں پیدا ہوئے۔ صوابی کے اس جوان نے 1992 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں شمولیت اختیار کی۔1994میں پاک فوج کی27 سندھ رجمنٹ جو کہ ان کی بہادری کی وجہ سے شیرِ حیدری کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور 1999میں کارگل کے محاذ پر12این ایل آئی جو کہ ان کی جرات کی وجہ سے حیدران پلٹن جانی جاتی ہے، کا حصہ تھے۔ کیپٹن کرنل شیر خان شروع ہی سے مہم جو اور انتہائی نڈر آفیسر تھے۔ 8نومبر1992 کو کرنل شیر پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے حصول کیلئے پہنچے۔ ٹریننگ کے تلخ اوقات سے وہ پہلے ہی واقف تھے مگر یہاں کے شب و روز کچھ زیادہ ہی کٹھن اور حوصلہ آزما ہیں۔ کرنل شیر کو عبیدہ کمپنی میں بھیجا گیا۔ وہ اپنے ساتھیوں میں بلند ہمت، مستقل مزاج اور زندہ دل مشہور تھے۔ ڈرل، پی ٹی ہر جگہ ان کی مستعدی کی تعریف کی جاتی۔ کرنل شیر خان ہتھیاروں، فیلڈ کرافٹ اور جنگی مہارت میں پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتے تھے۔ ایمان کی مضبوطی کا ثبوت یہ ہے کہ کرنل شیر کاکول کے یخ بستہ موسم میں، مشکل ترین اوقات میں بھی نفلی روزے رکھتے۔ کیپٹن احمد وحید بتاتے ہیں کہ: کرنل شیر نے سب جونئیر کو جمع کر کے ایک لیکچر دیا کہ میں آپ لوگوں کو صرف ایک دفعہ بلاں گا۔ وہ بلاوا، فجر کی نماز کے لیے ہو گا۔ لہذا نماز کے وقت سب کیڈٹ باہر جمع ہو جاتے اور کرنل شیر انہیں ساتھ لے کر مسجد کی طرف چلے جاتے۔اور ان کی شخصیت کا تاثر کچھ ایسا تھا کہ کسی لڑکے کو حکم عدولی یا بے ضابطگی کی جرت نہ ہوتی۔ آج بھی ان کا مسکراہٹ بھرا چہرہ ہماری یادوں کا حصہ ہے۔ لیفٹیننٹ ظہیر اعظم، کرنل شیر سے جونئیر تھے اور ان کا تعلق93لانگ کورس سے تھا۔ اپنی یادوں کے دریچے وا کرتے اور محافظ پاکستان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ: مجھے کرنل شیر کے ہمراہ اکیڈمی اور27سندھ رجمنٹ میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ کرنل شیر کے تعلیمی نتائج بہت اچھے تھے۔ ان کی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرنل شیر کو ایک اعزازی عہدہ دے دیا گیا۔ کرنل شیر کو ابتدا ہی سے ہتھیاروں سے بہت پیار تھا۔ وہ ایک ممتاز فائرر، نشانے باز بھی تھے۔ آپ پی ایم اے کی شوٹنگ ٹیم کا مستقل حصہ رہے۔ وہ سخت جان تھے اور اپنے قوت بازو پر مکمل بھروسہ تھا۔ پی ایم اے کے ہر شوٹنگ مقابلے کا حصہ رہے۔ انہیں بہت سے اعزازات سے بھی نواز گیا۔ پی ایم اے کے اسالٹ کورس میں کرنل شیر نے اپنے سینئرز اور ساتھیوں کو بہت متاثر کیا۔ ان کا ہتھیار تھامنے کا انداز، مشقوں میں جسمانی چستی اور ہمت و حوصلہ کما ل تھا۔ انہیں اس پر ہمیشہ تعریف اور تحسین ملی۔ کرنل شیر کی خواہش تھی کہ انہیں انفنٹری میں بھیجا جائے۔ انہوں نے اپنی منتخب کی ہوئی برانچ میں دلچسپی کے بارے میں سب کو بتایا تھا کہ دشمن سے دوبدو لڑنے کا موقع انفنٹری میں سب سے زیادہ ہیاور پھر وہ دن آگیا جس کا ہر کیڈٹ کو انتظار ہوتا ہے۔ تکمیل آرز و کا دن۔دعاں کی تکمیل اور وفاں کی پاسداری کا دن۔ اسے پاسنگ آٹ کہتے ہیں۔14اکتوبر 1994 کی شام کرنل شیر پاک آرمی کے باقاعدہ سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے۔ انکے کندھے پر چمکتے ستارے در حقیقت قوم کی امانت تھے۔ یہ مقدس ذمہ داریوں کا ثبوت ہے، جو جوانوں پہ ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ پاک فوج کا فرض اور قوم کا قرض ہے۔ نصب العین بھی ہے۔ پاک افواج تو ہمیشہ قوم کی امیدوں کا مرکز رہی ہیں اور ہمیشہ توقعات پر پوری اتری ہے۔جوش طوفاں، دیدہِ نمناک سے کیا کیا ہوادیکھ لے دنیا میں مشتِ خاک سے کیا کیا ہوا