Thursday, April 25, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزصحافت اور صحافی

صحافت اور صحافی

صحافت اور صحافی
تحریر: عفت رؤف
صحافت دراصل واقعات کی معلومات جمع کرنے،انھیں منظم پیرائے میں ڈھالنے،قارئین تک جامع انداز میں منتقل کرنے اور متعلقہ تبصروں یا تجزیوں سے آراستہ کرنے کا نام ہے 1606میں جرمنی سے صحافت کا آغاز ہوا تیرہ سال بعد انگریزی صحافت کا آغاز1622میں ویکلی نیوز لندن سے ہوا جب کہ اردو صحافت دو سو سال بعد منظرِ عام پر 1827میں آئی جب کلکتہ سے فارسی ہفت روزہ “جام جہان نما”کا منشی سدا سکھ مرزا پوری نے اردو میں ترجمہ کیا اردو زبان کے معروف صحافی مولانا محمد حسین آزاد،مولانا ظفر علی خان،محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد جیسے نابغہ روزگار لوگ تھے اب صحافت کی افادیت واضح کرنے کے لیے مزید تجزیے کی ضرورت ہے مختلف النوع صحافت میں عوامی صحافت عوام کے مسائل سے متعلق، ڈیجیٹل صحافت سوشل میڈیا کے ذریعے کی جانے والی صحافت کو کہتے ہیں زرد صحافت سستے ذوق کی تسکین،سنسنی اور شرانگیزی پھیلانے والے مواد پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ معیاری صحافت ادبی،علمی،پر مغز تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل ہوتی ہے عوامی صحافی عوامی خبروں کی تشہیر اور کالم نگار معیاری صحافت کا علمبردار ہوتا ہے اسی طرح ذرائع ابلاغ وترسیل کے حوالے سے مطبوعہ صحافت پرنٹ میڈیا سے متعلق اور برقیاتی صحافت ریڈیو،ٹی وی وغیرہ پر مبنی ہوتی ہے صحافت کا ضابطہ اخلاق وضع کرنا ازحد ضروری ہے خبریں اور معلومات ہمیشہ معاملےکی تصدیق کے بعد عوام تک منتقل کی جائیں خبرکے ہمراہ اپنی ذاتی رائے شامل نہیں کرنی چاہئے ایک خاص نکتہ نظر کے لیے بنیادی اطلاعات کا تشخص مسخ نہیں کرنا چاہیے صحافی کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ قارئین کو گمراہ نہ کرے،سنسنی خیزی سے اجتناب برتے،ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھے کسی خبر یا اطلاع سے متعلق غلط بیانی سے گریز کرے اور نادانستہ غلطی پر اعتراف اور مناسب ازالہ بھی کرے نامور کالم نگار اسد اللہ غالب زرد صحافت کے علم برداروں کا پردہ چاک کرتے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں”ہر شخص جو شادی بیاہ میلے ٹھیلوں کی ویڈیو فلمیں بنایا کرتا تھا اب وہ بھی صحافی بنا بیٹھا ہے نہ تربیت نہ شعور نہ پس منظر مائیک یا قلم ہاتھ آ جائے تو صحافی خان یا میڈیا خان بن جاتا ہے”آئین پاکستان 1973کے آرٹیکل 9 اے کےتحت ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اداروں کے اعداد و شمار اور کارکردگی سے متعلق استفسار کا مجاز ہے صحافی اسی حق کے تحت معلومات حاصل کرتے ہیں لیکن اس ضمن میں ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے خبر کی تحقیق و تصدیق کی اہمیت پر زور دیا اور نصیحت کی کہ وہ یک طرفہ خبروں کی اشاعت سے گریز کریں صحافی اسی صورت معاشرے میں معزز مقام حاصل کر سکتا ہے کہ جب وہ عمیق نظری،مدبرانہ بصیرت،معلومات آفرینی اور حقوق وفرائض کا مکمل ادراک رکھتا ہو۔ رہا صحافیوں کو درپیش مسائل کا معاملہ تو دنیا بھر میں انھیں بے باک صحافت کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے عراق 340،میکسیکو178 ،فلپائن178اور پاکستان 161کے اعداد و شمار کے ساتھ صحافیوں کے قتل والے خطرناک ترین ممالک میں آتے ہیں 2007-2017تک پاکستان میں صحافیوں کے ایک سو قتل کے مقدمات میں صرف تین کے ملزمان کو قصوروار ٹھہرایا گیا سخت قانونی محاسبے کے فقدان کے باعث یہ برادری غیر یقینی حالات اور ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہے معاشی استحصال کا تذکرہ کریں تو میڈیا گروپس مافیا ملازمین کے معاشی قتل کی اصل ذمہ دار ہے مہینوں تنخواہ کی بندش یا بے روزگاری مایوسی بڑھا کر خودکشی کی جانب راغب کرتی ہے اور مقتول کے اہل خانہ مستقل مفلسی کی نظر ہو جاتے ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اخبار اور میڈیا گروپس مالکان سے عارضی ومستقل تمام ملازمین کی انشورنس کرانے کی استدعا کی ہے اب یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا معاشی تحفظ خود کریں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔