Friday, April 19, 2024
ہومتازہ ترینکھوکھلے نعرے !

کھوکھلے نعرے !

تحریر۔ ۔ ۔ ۔ عرفان خان سدوزئی
پاکستانی ریاست نے نوے کی دہاٸی سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سرکاری اداروں کی نجکاری کرکے ان سفید ہاتھیوں کا بوجھ سر سے اتارا جاۓ جو نہ صرف قیام پاکستان سے لیکر آج تک خسارے میں ہیں بلکہ کرپشن کی بنیاد ہیں ، لیکن کیا کریں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات , اپوزیشن اور اقتدار میں مختلف ہوتی
ہیں ۔
پیپلز پارٹی جب سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا چاہ رہی تھی تو مسلم لیگ ن نے اسکی مخالفت کی اور احتجاج میں ملازمین کے ساتھ پیش پیش رہی اور جب یہ اقتدار میں آۓ تو انہیں بھی پیپلز پارٹی کی جانب سے اسی رویے کا سامنا رہا ۔
حال ہی میں تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر سٹیل ملز , پی آٸی اے اور دیگر سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف میدان میں کودے اور یہ دعوی کیا کہ ان کے پاس ان اداروں کو ٹھیک کرنے کا حل موجود ہے لیکن جب وہ ناکام ہوۓ تو انکی جماعت نے بھی یہی واویلا کیا کہ یہ ادارے بوجھ ہیں بلکہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری عوام کو یہ سمجھاتے رہے کہ حکومت کا کام سرکاری ادارے چلانا نہیں ہوتا، فواد چوہدری نے اپنی دلیل کو درست ثابت کرنے کیلیے مغربی ممالک کی مثالیں دیں لیکن یہ بھول گٸے کہ ان کی جماعت کا نعرہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے جہاں مستحق افرادکو ہر چیز ان کی خواہش کے مطابق نہ سہی لیکن ان کی ضرورت کے مطابق ضرور ملے ۔
پاکستان اداروں کے بغیر بے معنی ہے کیونکہ جب یہ ادارے پراٸیوٹ ہو جاٸیں گے تو پہلے سے غربت کی چکی میں پسے ہوۓ عوام کو کہاں سے ریلیف ملے گا ، عید کے دنوں میں غریبوں کے لیے سب سے اچھی خبر ریل کے کرایوں میں کمی کے اعلان کی صورت میں ہوتی ہے ، حج کے دنوں میں مستحق افراد کے لیے سرکاری سکیم کے تحت اخراجات میں کمی کا پیکج اللہ کا گھر دیکھنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ۔ میٹرو بسوں میں کم کرایہ ادا کرکے ہماری ماٸیں، یتیم بہنیں اور بیٹیاں جس احساس تحفظ سے اپنی منزل پہ پہنچتی ہیں یقینا انہیں پاکستان میں اپنے حقوق کی فراہمی پہ فخر ہوتا ہو گا ، وہ ضرور سوچتی ہوں گی کہ ہمارے سر پہ باپ کا ہاتھ تو نہیں رہا لیکن پاکستان کا سایہ ضرور موجود ہے ۔ جب ایک غریب مزدور کا بچہ سرکاری سکول سے پڑھ کہ سرکاری افسر بنتا ہو گا تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں ہو گی ، جب جب کوٸی بزرگ اسپتال سے مفت علاج کرواتا ہوگا تو اس کا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہو گا کہ اگر اس دنیا میں اس کا کوٸی نہیں تو کیا ہوا ، اس کے دکھوں پہ مرہم رکھنے کیلیے پاکستان تو ہے ناں ۔
ہم نے پاکستان کو بدلنے کے نٸے نٸے نعرے لگاۓ ، نیا پاکسان ہو ، بدلتا پاکستان ہو ، ایشن ٹاٸیگر ہو یا مدینے کی ریاست ، یہ نعرے نعروں کی حد تک ہی تھے جب جب کوٸی نعرہ ناکام ہوا لوگوں کا اعتماد بھی گرتا گیا اسی لیے ہر مرتبہ نیا نعرہ تخلیق کیا گیا ، ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کا مطلب کیا سے شروع ہونیوالا یہ سفر ریاست مدینہ پہ لاکہ ختم کر دیا ہے ، عوام اب اس حد تک مایوس ہو کہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ شاٸید ہم میں بدلنے کی سکت نہیں یا پھر جو نعرے لگے ان سے منسوب حقیقت کا وجود ہی نہیں تھا ، شاٸید اسی لیے بات نعروں سے آگے بڑھی ہی نہیں ۔
ہمیں نیا پاکستان بنانے یا پھر پرانے پاکستان کو الٹ پلٹ کہ سیدھا کرنے کی ضرورت نہیں، اگر کوٸی فوجی حکمران یا سیاسی جماعت پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اسے آنکھیں بند کرکے بھارت کی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کے منشور اور اسکے سربراہ اروند کیجریوال کے طرز سیاست کو اپنانا ہو گا ۔
بھارت اور پاکستان کے مساٸل تقریبا ایک جیسے ہیں اور اروند کیجریوال نے ماضی قریب میں وہ سب کچھ کر دکھایا جس کا انہوں نے دلی کی عوام سے وعدہ کیا تھا ۔ بس ایک لمحے کے لیے بھول جاٸیں کہ وہ بھارتی ہے اور ہم پاکستانی ، وہ ہندو ہے اور ہم مسلمان ، بس اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کہ بتاٸیں کہ کیا اروند کیجریوال نے دلی کو ریاست مدینہ نہیں بنایا ؟