Friday, April 19, 2024
ہومکالم وبلاگزدھکے پر چلنے والی حکومت

دھکے پر چلنے والی حکومت

دھکے پر چلنے والی حکومت

تحریر۔ امتیاز علی تاج

دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی کرونا وائرس کے سنگین خطرات سے دوچار ہے ملکی سطح پر روزانہ پچاس سے زائد افراد اس مہلک مرض سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔جس میں شہریوں کا حفاظتی ضابطوں کی پاسداری نہ کرنا اور حکومتوں کی طرف سے ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے میں غفلت اور لاپرواہی برتنے جیسے عوامل نمایاں ہیں۔جس کے باعث اس عالمی وبا کے خلاف جنگ میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں تجارتی اور سیاحتی سرگرمیاں بہت حد تک معطل ہیں مگر ہم ایک پسماندہ ملک میں ہوتے ہوئے ان پابندیاں اور سرگرمیوں کو قابل عمل نہ بنا سکیں جس سے جانی خطرات کا چلنج بڑھتا جا رہا ہے۔ملک کے چاروں صوبوں کے برخلاف گلگت بلتستان میں کچھ زیادہ ہی آزادیاں ہیں عوامی سطح پر ایس او پیز کی خلاف ورزیاں اور حکومتی لیول پر بے حسی دیگر صوبوں کی نسبت قدرے شرمناک ہے۔گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت الیکشن جیتنے کی جشن میں مصروف رہ کر آٹھ مہینوں تک کرونا کے حوالے سے مکمل خاموش رہی جولائی میں کرونا مثبت کیسز کی شرح 19 فیصد کی ریکارڈ توڈ سطح تک پہنچا اور ایک دن میں درجن بھر افراد کی اموات ہونے لگی مگر حکومت نے تب بھی خاموشی نہیں توڈی جولائی میں ان تشویشناک صورتحال پر اپوزیشن لیڈر امجد ایڈووکیٹ اور سابق وزیرِِاعلی حافظ حفیظ الرحمان نے حکومت پر برہم ہوئے اور آئیندہ کرونا کی موت پر حکومت کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی تو دھکے کی حکومت نے پریس کانفرنسز پر حکومتی اقدامات گنوانا شروع کر دیا جب اپوزیشن نے زیادہ دبا ڈالا تو وزیر اعلی خالد خورشید خود میدان میں نکل آئیں اور جولائی میں کرونا ویکسینیشن مہم تیز کرنے اور مارکیٹوں میں کرونا ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کا عزم ظاہر کیا اور سرکاری ملازمین کو پہلے اپنے اس کے بعد فیملی ممبرز کی ویکسینیشن نہ کرانے پر جولائی کی تنخواہیں ادا نہ کرنے کا اعلان کر دیا اس سے چند دنوں تک اخباری صفحات پر نمایاں رہنے کے بعد حکومت پھر غائب ہوئی جس کے بعد اپوزیشن نے بھی مزید دھکے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کے باعث بازاروں اور مارکیٹوں میں ماسک کا استعمال ایک فیصد سے بھی کم سطح پر آگیا اور ملازمتیں نے بھی ویکسینیشن کی پابندی کے حکومتی فیصلے کو جوتی کی نوک پر رکھ دیا جس کی وجہ سے وزیر اعلی جس نے اگست اور ستمبر تک سو فیصد کرونا ویکسینیشن کا ہدف مقرر کر دیا تھا مکمل ناکام ہو گیا سرکاری ریکارڈ کے مطابق اب تک ویکسینیشن کرانے والوں کی شرح 60 فیصد سے کم ہے اور حال یہ ہے کہ کرونا کے خلاف جنگ لڑنے والے اس محاز کے جرنیل اور وزیر صحت حاجی گلبر عوام کو کئی مہینوں تک محکمے کے زریعے ویکسینیشن پر زور دیتے رہے خود دو ہفتے قبل ویکسینیشن کرا لی ہے وہ بھی کرونا کی علامات ظاہر ہونے کے بعد اب اگر زمہ دار وزیر کی بے عملی کا یہ حال ہو تو وہاں عوام سے حکومتی پابندیوں کی پاسداری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ کرونا کے گزشتہ دو سال کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کے نو ماہ میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں ہیں سرکاری اعداد شمار کے مطابق اب تک 184 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ موجودہ دور حکومت میں 80 کے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں موجودہ صورت حال میں 213 افراد زیر علاج ہیں اور بڑی تعداد ہوم آئسولیش میں ہیں مگر حکومت اس اہم مسلے کو مسلہ سمجھنے اور اسے سنجیدہ معاملہ سمجھنے کے لیے اب بھی تیار نہیں تحریک انصاف کے دور میں کرونا وائرس کا شکار ہو کر جانوں سے ہاتھ دھونے والے افراد کی زمہ داری حکومت پر اس لیے بھی عائد کی جاسکتی ہے کہ اس حکومت نے روزگار کے نام پر لوگوں سے انکے پیاروں کی جانیں چھین لی ماہرین صحت سمارٹ لاک ڈان اور تعلیمی اداروں کی بندش اور سیاحتی پابندیاں تجویز کیں تو حکومت نے بیروزگاری بڑھنے کے خدشے پر مسترد کر دی جس کا جواب جانی ضیاع کی شکل میں سامنے آ گیا تعلیمی ادارے تب بند ہوئے جب نیشنل کمانڈ نے احکامات جاری کئے۔مگر سیاحتی سرگرمیاں جاری رہیں جس سے کرونا کے پھیلا میں غیر معمولی تیزی آ ئی جو پابندیاں عائد کی گئی وہ بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے والے سیاحوں تک محدود رہی وہ بھی دیکھاوے کے حد تھے جبکہ فضائی سفر کر کے آنے والوں کو مکمل چھوٹ ری گئی جس سے کرونا ایس او پیز امیر غریب اور طبقاتی درجہ بندی کا شکار ہو کر رہ گئی۔یہ حال ہے ہماری گورننس اور سیاسی فکر کا جس نے تین سو سے زائد افراد کو اس مہلک مرض کا شکار کر دیا نہیں معلوم انہوں مزید کتنے لوگوں کو متاثر کیا۔بہر حال ماہرین صحت کی تجاویز پر سیاحتی آزادیاں حکومت کی بڑی غلطی تھی۔جس کے باعث جولائی میں آگسیجن نہ ملنے سے بھی کئی ایک کی جان چلی گئی۔جبکہ فائدے کو دیکھا جائے تو چند سرمایہ دار افراد جو ہوٹل ایڈسٹری سے وابستہ تھے انکا معاشی پیہہ ضرور چلا مگر غریب اور عام طبقے کے ساتھ حکومت کو بھی کچھ نہیں ملا سیاح لاکھوں میں آ ئیں فضائی آلودگی کی شرح کو سرکاری ریکارڈ کے مطابق تشویشناک سطح پر پہنچایا ٹنوں کا کچرا بھی پیدا کیا وسائل کی قلت کو بھی جنم دیا کرونا وائرس کے پھیلا کے موجب بھی بنے مگر گلگت بلتستان کے خزانے کو ایک پیسہ کی آمدنی نہیں ملی ۔اور حکمران اس بے فیض سیاحت اور دنیا میں نایاب ویلفیئر ٹورازم کے تصور کو پختگی بخشنے کی کامیابی پر اب بھی محو رقص ہیں۔ جسے حکومتی طوطوں نے سبز انقلاب بنا کر پیش کیا۔گلگت بلتستان پر خدا کا کرم ہے کہ یہاں رقبہ وسیع اور ابادی کم اور وسیع فاصلے پر ہونے کے ساتھ لوگوں کی قوت مدافعت دیگر علاقوں سے زیادہ مضبوط ہیاس لیے حکومتی بیحسی سے جانیں زیادہ نقصان نہیں ہوئی ورنہ بڑے شہروں کی طرح ہماری ایک تحصیل کے برابر لوگ اگر ایک پلازے میں رہتے یا روزانہ ہزاروں لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے یا مارکیٹوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے تو یہاں ہندوستان سے بدتر صورت حال پیدا ہونی تھی۔شاہد قدرت نے بھی بے حس حکمرانوں کے یہاں مسلط ہونے پر عوام کو مہلک وبائی امراض سے محفوظ بنانے کا پہلے سے ہی انتظام کر رکھا تھا۔جسکی بدولت اب تک کی سب سے خطرناک وبا میں بغیر سرکاری انتظامات کے جانوں کا نقصان کم سے کم ہوا گلگت بلتستان میں سیاحتی سرگرمیاں سردی کی صورت حال کے باعث محدود ہونے کی وجہ سے کرونا کی شرح میں غیر معمولی کمی آ ئی ہے جولائی میں جو مثبت کیسز کی شرح 19 فیصد تک بڑھ گئی تھی وہ اب ایک سے ڈیڈھ فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کرونا کے پھیلا میں اہم کردار سیاحوں کا ہے اس لیے اب مزید سردیاں بڑھنے پر مثبت کیسز کی شرح میں تیزی سے کمی آ ئے گی اور گزشتہ سال کی طرح مارچ تک کرونا فری بن جائے گا جس کے بعد بہار میں سیاحوں کا ہجوم پھر سے امڈ آ نا ہے اس لیے پوری سنجیدگی اور زمہ داری کے ساتھ موثر حکمت عملی بنائی جائے تاکہ یہاں کے لوگ پھر سے اپنے پیاروں کی جدائی کا غم منانے سے محفوظ رہ سکیں۔اسی کے ساتھ حکومت کو کرونا ویکسینیشن کے اپنے ہدف پر بھی بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی ضیاع کو کم سے کم کر کے اپنی قومی زمہ داریوں کی ادائیگی کو ممکن بھی بنایا جاسکے اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے کوئی کرونا سے جان کی بازی ہارے گا اور نہ کسی غریب کو روزگار میں پریشانی کے باعث کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا حکومتی خیرات کا منتظر رہنے کی ضرورت پیش آئے گی۔امید ہے کہ صوبائی حکومت اس انسانی معاملے میں اپوزیشن کے دھکے کا انتطار کیے بغیر اپنی زمہ داری پوری کریگی ورنہ گزشتہ ہفتوں کی طرح اے ڈی پی دھکے پر اس میں اپوزیشن کے خواہشاتِ کے مطابق تبدیلی کرنے بعدازاں دو الیکشن ٹربیونل جج کی تقرری پر طاقت کے مظاہرے کی دھمکی پر تین ججوں کی تقرری عمل میں لانے ،کرونا کی بگڑتی صورتحال پر جھٹکا دینے پر خود کو سرگرم ظاہر کرنے کی روایتی روش اور دھکے پر ہی انحصار کرتے رہنے کی پالیسی یوں ہی چلتی رہے گی تو حکومت اپنی اخلاقی و سیاسی جواز کھو دیگی